آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراضی کا اظہار بھی نہیں کیا اور اگر آپ غصے میں ہوتے یا انکار کرتے تو ہماری امی جان اسے ضرور پوری امانت و دیانت کے ساتھ واضح کرتیں ۔ جس طرح انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے اور اس وقت کی ناراضی اور انکار کو واضح کیا جب انھوں نے اپنے دروازے پر ایسا پردہ لٹکایا جس پر تصاویر تھیں ۔ وغیرہ وغیرہ۔
یہ کہنا بھی ممکن ہے کہ ان کا یہ قول عورتوں سے ان کی نفرت اور ان کے بارے میں بری رائے کو ترک کرنے سے کنایہ تھا۔ اس وجہ سے کہ جب سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے دیکھ لیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے مطابق احکام نازل کرتا ہے تو آپ رضی اللہ عنہا کا اس بات سے یہ مقصد ہو سکتا ہے کہ میں اس وجہ سے عورتوں سے نفرت کرتی تھی۔ پس جب میں نے دیکھا کہ اللہ عزوجل اپنے نبی کی رضا کی رعایت کرتا ہے تو میں نے اپنی یہ عادت بدل دی۔ کیونکہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کی مخالفت کا شائبہ پایا جاتا تھا۔[1]
تیسرا شبہ:
وہ کہتے ہیں کہ ’’عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز افشاء کیا۔‘‘
یہ شبہ روافض نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔[2]اس کے ذریعے سے وہ ہماری امی عائشہ اور ہماری امی حفصہ پر تہمت لگاتے ہیں کہ ان دونوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا راز افشاء کیا جس کے اعتبار سے علی رضی اللہ عنہ کی ولایت ثابت ہوتی تھی اور رافضی اس وجہ سے ان دونوں پر کفر کرنے کا حکم لگاتے ہیں ۔
وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
﴿ وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللّٰهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَكَ هَذَا قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ () إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ ﴾ (التحریم: ۳۔۴)
’’اور جب نبی نے اپنی کسی بیوی سے پوشیدہ طور پر کوئی بات کہی، پھر جب اس (بیوی) نے اس بات کی خبر دے دی اور اللہ نے اس (نبی) کو اس کی اطلاع کر دی تو اس (نبی) نے (اس بیوی کو) اس میں سے کچھ بات جتلائی اور کچھ سے اعراض کیا، پھر جب اس (نبی) نے اسے یہ
|