ان تمام مشاہد کو مومن تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا خصوصی لطف و کرم سمجھتا ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں کسی غیر محرم کا ہاتھ لگنے سے بھی محفوظ رکھا۔
پچھلی امتوں میں ایک ظالم نے ابراہیم خلیل اللہ کی بیوی ہاجرہ رحمہ اللہ کو چھونے کی کوشش کی تو اس کے ہاتھ کو شدید جھٹکا لگا۔ ایسا تین بار ہوا تو وہ اپنے ناپاک ارادے میں ناکام رہا۔[1]
اگر اللہ کے نبی ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کی شان میں گستاخی کرنے والے کا یہ حشر ہوا تو پھر تمام مخلوق سے اشرف و افضل نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سے بدسلوکی کرنے والے کا کیا حشر ہو سکتا ہے؟ اس سے ام المومنین رضی اللہ عنہا پر لگائی جانے والی ہر تہمت کے باطل ہونے کی وضاحت ہو جاتی ہے۔
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی آبرو کے بارے میں جو کچھ کہا گیا وہ اللہ کے فضل سے اس سے بری ہیں ۔ واللّٰہ اعلم۔
چوتھا شبہ:
’’انھوں نے اپنے سفر میں بنو حوأب کے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنیں پھر بھی واپس نہ ہوئیں ۔‘‘
قیس بن ابی حازم سے روایت ہے کہ جب سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سفر پر چل پڑی تو بنو عامر کے چشموں کے پاس سے ان کا قافلہ گزرا۔ اس نے رات کے وقت انھیں جگایا تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو کتوں کی بھونک سنائی دی۔ انھوں نے دریافت کیا: یہ کون سا چشمہ ہے؟ لوگوں نے بتایا: یہ حوأب کا چشمہ ہے۔ انھوں نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ میں واپس چلی جاؤں گی۔ لوگوں نے کہا: اللہ آپ پر رحم کرے۔ ذرا صبر کریں ، آپ آگے بڑھیں گی مسلمان آپ کو دیکھیں گے ، یقیناً اللہ آپ کے ذریعے صلح کروا دے گا۔ انھوں نے فرمایا: مجھے یقین ہے کہ میں لوٹ جاؤں گی۔ بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
((کَیْفَ بِاِحٖدَاکُنَّ تَنْبَحُ عَلَیْہَا کِلَابُ الْحَوَابِ۔))[2]
|