جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر حرف ہے اور جسے لکھنے یا بیان کرنے کی سکت نہیں ۔‘‘
ان کا یہ شبہ مصنف ابن ابی شیبہ کی اس حدیث سے پیدا ہوا ہے جو اس نے اپنی سند کے ساتھ عمار بن عمران کے واسطے سے جو بنی زید اللہ کا ایک فرد ہے اپنے خاندان کی ایک عورت کے واسطے سے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ اس نے ایک لڑکی کو مزین[1]کیا اوراس کے ساتھ گھومنے گئے اور کہا: شاید ہم اس طریقے سے قریشی نوجوان کا شکار کریں۔[2]
درج بالا شبہے کا جواب:
یہ کہ اس روایت کا دار و مدار ایک مجہول راوی پر ہے اور وہ ایک عورت ہے جس نے یہ مصیبت کھڑی کی ہے اور محدثین کے نزدیک یہ سند سب سے کمزور ہے۔
نیز عمار بن عمران کے متعلق ذہبی نے کہا اس کی حدیث صحیح نہیں ۔ بخاری نے اسے ضعفاء میں شمار کیا۔[3] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لسان المیزان میں اس کی تائید کی۔[4]
گویا اس روایت میں ایک راوی مجہول اور ایک ضعیف ہے، لہٰذا اسے دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ تو رہا روایت اور درایت کے اعتبار سے۔
پانچواں شبہ:
یہ کہ ’’ابنۃ الجون اسماء بنت نعمان[5] اور ملیکہ بنت کعب[6] دونوں کے ساتھ عائشہ رضی اللہ عنہا نے دھوکا
|