سفر کیا۔ جب میں مکہ پہنچی تومیں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ نماز قصر کرتے رہے اور میں اتمام کرتی رہی، میں روزے رکھتی رہی اور آپ نے روزے نہ رکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! تو نے اچھا کیا۔‘‘[1]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا: ’’اس حدیث کے ذریعے سے عائشہ رضی اللہ عنہا پر جھوٹ باندھا گیا ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ کے برعکس نماز پڑھے حالانکہ وہ ان کو قصر کرتے ہوئے دیکھ بھی رہی ہو۔ پھر بغیر کسی وجہ کے وہ اکیلی پوری نماز پڑھتی رہے۔[2]
امام ابن قیم رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’یہ حدیث غلط ہے۔‘‘[3]
ساتواں بہتان:
روافض کہتے ہیں کہ ’’عائشہ رضی اللہ عنہا نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نماز کی امامت کے لیے آگے کریں ۔‘‘[4]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مُرُوْ اَبَا بَکْرٍ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ)) [5]
’’تم ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے۔‘‘
تو لوگوں نے انھیں نماز کے لیے آگے بڑھایا۔ لیکن روافض کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا حکم نہیں دیا۔ بلکہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تمام لوگوں کی امامت کے لیے آگے کرے۔ درحقیقت یہ ان کا روایتی سلسلہ وار جھوٹ ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
|