تیسرا مبحث:
سیّدہ عائشہ اور ابوبکر صدیق رضی ا للہ عنہما کی باہمی فضیلت
علماء کا اجماع ہے کہ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی سے افضل ہیں اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے کچھ علماء سے حکایت بیان کی ہے کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے والد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں ۔ پھر امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی رائے کو ردّ کیا ہے۔[1]
شاید اس سے ابن حزم رحمہ اللہ مراد ہیں ۔ کیونکہ امام ذہبی نے ایک اور مقام پر لکھا ہے کہ تعجب تو اس پر ہے کہ ابو محمد بن حزم اپنے وقت کے سب سے بڑے عالم ہونے کے باوجود سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کے باپ رضی اللہ عنہ سے افضل کہتے ہیں ۔ اس رائے کے ذریعے انھوں نے اجماع میں دراڑ ڈال دی۔[2]
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے فضل و منقبت کے ساتھ قافلے چلتے رہے اور ان کو ثقات نے بیان کیا اور امت کے ہر ادنیٰ و اعلیٰ فرد کو اس بات کا علم ہے۔ حتیٰ کہ ان کا تذکرہ امت کی افضل عورتوں میں کیا گیا پھر ان کے افضل ہونے میں اختلاف کا بنیادی سبب ان جیسی ان کے ساتھ دو عورتوں کی شرکت کی وجہ سے ہو اگرچہ علم و انتفاعِ امت کے پہلو سے ان کے افضل ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں اور یہ کہ اس میدان میں ان سے پہلے یا ان کے بعد کوئی عورت ان کے ہم پلہ نہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے جو جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
اب خلاصہ کلام درج ذیل تین نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے:
۱۔یہ کہ علماء کا اتفاق ہے کہ اس امت کی افضل ترین تین خواتین ہیں ۔ سیّدہ خدیجہ، سیّدہ عائشہ اور سیّدہ فاطمہ علیہ السلام ۔
۲۔مطلق طور پر ان تینوں میں کسی ایک کو سب سے افضل کہنے میں اختلاف ہے۔ البتہ بعض پہلوؤں سے ان کو ایک دوسرے پر فضیلت ضرور حاصل ہے۔
۳۔علماء کا اجماع اس پر ہے کہ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے افضل ہیں ۔
|