قاتلانہ حملہ ہوا تو سیّدنا صہیب رضی اللہ عنہ ان کو دیکھ کر رونے لگے اور کہنے لگے ہائے میرا بھائی! ہائے میرا ساتھی! تو عمر رضی اللہ عنہ نے اسے مخاطب کیا: اے صہیب! تو مجھ پر روتا ہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے میت کو اس کے اہل خانہ کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔‘‘ ابن عباس رضی ا للہ عنہما نے کہا جب سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے تو میں نے یہ بات سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتائی۔ وہ کہنے لگیں : اللہ عمر پر رحم کرے، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہر گز نہیں فرمایا کہ مومن کو اس کے اہل خانہ کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ضرور فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ کافر کے اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے اس کافر کے عذاب میں اضافہ کر دیتا ہے۔‘‘ پھر آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: تمھیں یہ قرآن کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ﴾ (الاسراء: ۱۵)
’’اور کوئی بوجھ اٹھانے والی (جان) کسی دوسری (جان) کا بوجھ نہیں اٹھاتی۔‘‘
سیّدنا ابن عباس رضی ا للہ عنہما نے فرمایا: اللہ کی قسم! وہی ہنساتا ہے اور وہی رلاتا ہے۔
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں ۔ اللہ کی قسم! ابن عمر رضی ا للہ عنہما نے یہ سن کر کچھ نہیں کہا۔[1]
۲۔اپنے استدراکات کی پختگی کے لیے قرآن کریم کی طرف مراجعت:
جیسا کہ درج بالا حدیث میں اگرچہ انھیں یقین تھا کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان من و عن روایت کیا ہے پھر بھی ان کی تائید و تاکید کے لیے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پیش کیا:
﴿ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ﴾ (الاسراء: ۱۵)
’’اور کوئی بوجھ اٹھانے والی (جان) کسی دوسری (جان) کا بوجھ نہیں اٹھاتی۔‘‘
۳۔فقہ الحدیث اور اس کی فہم کے لیے مکمل کوشش کرنا:
اس کی مثال علقمہ کی روایت ہے:
’’ہم سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھے تو سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ وہاں تشریف لائے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں یوں مخاطب کیا۔ کیا تم یہ حدیث بیان کرتے ہو کہ ایک عورت کو اس کی بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا، اس نے اسے باندھ دیا نہ اسے کچھ کھانے کو دیا اور نہ اسے پانی پلایا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ہی سنا۔‘‘
|