نے بولنا چاہا لیکن سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انھیں خاموش کرا دیا۔ بعد میں عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: اللہ کی قسم! میرا ارادہ یہ تو نہ تھا، تاہم میں نے اپنے مطابق کچھ باتیں سوچی ہوئی تھیں اور مجھے اندیشہ تھا کہ ابوبکر ایسا کلام نہ کر سکے گا۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نہایت فصیح و بلیغ خطاب کیا۔ جس کے چند الفاظ یوں تھے:
’’ہم امیر ہوں گے اور تم وزیر ہو گے۔‘‘ تب سیّدنا حباب بن مندر رضی اللہ عنہ نے کہہ دیا: نہیں ، اللہ کی قسم! ایسا ہم نہیں کریں گے ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر تم میں سے ہو گا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’نہیں لیکن ہم امیر ہوں گے اور تم وزیر بنو گے۔ وہ (یعنی مہاجرین) تمام عربوں سے معتدل مزاج ہیں اور حسب و نسب میں سب عربوں سے زیادہ شریف و معزز ہیں ۔ لہٰذا تم عمر یا ابو عبیدہ بن جراح کی بیعت لے لو۔ تب عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : بلکہ ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں ، آپ ہمارے سردار، آپ ہم میں سے بہترین اور ہم میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ترین ہیں ۔ پھر سیّدنا عمر نے ابوبکر رضی ا للہ عنہما کا ہاتھ پکڑا اور ان کی بیعت کی اور سب لوگوں نے بھی ان کی بیعت کرنا شروع کر دی۔[1]
پہلا نکتہ
سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں
ام المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے احوال
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ مسند خلافت پر فائز ہوئے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے ان کی بیعت کر لی اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اپنے حجرے میں تنہا زندگی بسر کرنے لگیں ۔
عام لوگوں کے لیے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی کم عمری کے باعث دعوت دین کے سلسلے میں ان کا علمی پہلو اوجھل رہا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موت سے جو زخم انھیں لگا اس کا مندمل ہونا بھی دکھائی نہ دیتا تھا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے ساتھ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مرتدین و منکرین کی سرکوبی میں مشغول ہو گئے۔
لیکن ان سب مہمات کے باوجود جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے سیّدنا عثمان بن
|