ایمان لانے والوں میں سے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَا تَسُبُّوْا اَصْحَابِیْ فَلَوْ اَنَّ اَحَدَکُمْ اَنْفَقَ مِثْلَ اُحُدٍ ذَہَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ اَحَدِہِمْ وَ لَا نَصِیْفِہٖ))
’’تم میرے اصحاب کو گالی مت دو۔ اگر تم میں سے کوئی کوہِ احد کے برابر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو ان کے اللہ کی راہ میں خرچ کیے ہوئے ایک مد (لپ) بلکہ آدھا مد (چلو) کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔‘‘[1]
جب درج بالا گفتگو اللہ تعالیٰ کی بے نیام تلوار خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے کی گئی جن کے ہاتھوں سے اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی خصوصی نصرت و حمایت کی، اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جرنیل صحابہ میں سے ہیں تو جس شخص کو صحابہ سے کوئی نسبت ہی نہیں وہ صحابہ کو کیسے گالی دے سکتا ہے۔ اسی طرح بعد میں آنے والوں کو زیب نہیں دیتا کہ اسلافِ امت کے متعلق زبان درازی کریں ۔
۴۔صحابہ کے باہمی تنازعات کے متعلق ہم توقف سے کام لیتے ہیں اور ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہیں اور اس مقام پر ہم تمام صحابہ کو مجتہدین سمجھتے ہیں جن کا اجتہاد حق پر تھا ان کو دو اجر ملیں گے اور جنھوں نے اجتہاد میں خطا کی ان کو ایک اجر ملے گا۔ ان شاء اللّٰہ۔
پہلا نکتہ:.... واقعہ جمل پر سیر حاصل بحث
سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ ۱۸ ذی الحجہ؍جمعہ کے دن ۳۰ ہجری کو شہید کر دئیے گئے۔ یہ قول زیادہ مشہور ہے۔ لوگوں تک یہ خبر پہنچ گئی۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی یہ افسوس ناک خبر سنی، لوگوں نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلافت کی بیعت لینے کے لیے آمادہ کر لیا۔ جو صدمہ لوگوں کو تھا وہی عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی تھا، تاہم وہ دوسرے لوگوں کو علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے کی تلقین کرتی رہتیں ۔ بہرحال امت مسلمہ کے دل اس جانکاہ صدمہ سے چور چور تھے جو انھیں پاکباز، متقی ابو عبداللہ عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کی اس مظلومانہ شہادت سے پہنچا تھا ، ایسا صدمہ جو چند مجرم ہاتھوں کے ذریعے مدینہ منورہ میں پیش آیا انھوں نے لوگوں کو خوف زدہ کر دیا اور امیر المومنین خلیفۂ ثالث کو قتل کر ڈالا۔ اس وقت صحابہ کرام کی ایک جماعت اٹھی اور سب نے مل کر علی رضی اللہ عنہ کی بیعت لی اور ان سے عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص لینے کا وعدہ لیا۔ علی رضی اللہ عنہ نے ان کا مشورہ قبول کر لیا اور انھیں کچھ دیر تک صبر کرنے کا مشورہ دیا، کیونکہ فتنہ گروں کے پاس طاقت تھی لوگوں پر ان کی دہشت
|