کے فصحاء کا طریقہ تھا۔ چنانچہ جب وہ کسی متکلم کو لغوی اعتبار سے ناقص کلام کرتے ہوئے یا بھونڈے انداز میں گفتگو کرتے ہوئے سنتیں ، تو اسے پورے رعب و دبدبے سے ٹوکتیں ۔ ان کا یہ انداز بھی مشہور ہے کہ جب کسی بندے کو بے وزن گفتگو کرتے ہوئے سنتیں ، تو غصے ہوتیں اور اس کی زجر و توبیخ، اس کی تادیب و تأنیب سے بھی گریز نہ کرتی تھیں ۔ وہ اپنی طبیعت کو بھی آڑے نہ آنے دیتیں اور نہ غلط سننا برداشت کرتیں ۔ ایسا کیوں تھا صرف اور صرف اس لیے کہ فصاحت و بلاغت میں ان کا مرتبہ بہت بلند تھا۔ بلکہ لغوی میدان میں ان جیسا شہسوار شاید ہی کوئی ہو۔
ابن ابی عتیق کہتے ہیں :
’’میں اور قاسم سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گفتگو کرنے کے لیے گئے۔ قاسم غیر فصیح کلام کرنے میں مشہور تھا اور ام ولد کا بیٹا تھا۔ چنانچہ کچھ دیر کے بعد سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے مخاطب کیا: کیا بات ہے تم چپ ہو، اس طرح بات کیوں نہیں کرتے جس طرح میرا یہ بھتیجا گفتگو کر رہا ہے؟ تاہم مجھے پتا ہے تم کہاں سے آئے ہو اسے تو اس کی ماں نے ادب کی تعلیم دی اور تمھیں تیری ماں نے ادب سکھایا؟ بقول راوی قاسم یہ سن کر بھڑک اٹھا اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نفرت کرنے لگا۔ جب اس نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا دسترخوان آتے ہوئے دیکھا تو کھڑا ہو گیا۔ وہ کہنے لگیں : کدھر کا اِرادہ ہے؟ قاسم نے کہہ دیا: نماز پڑھنے جا رہا ہوں ۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تم بیٹھ جاؤ۔ اس نے پھر کہا: یقیناً میں نے نماز پڑھنی ہے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے دھوکے باز بیٹھ جا بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’کھانے کی موجودگی میں اور دو گندگیوں (پیشاب، پاخانہ) کی آمد کے وقت نماز نہیں ہوتی۔‘‘[1]
ساتواں نکتہ
علاج معالجے اور علم الطب میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی دسترس
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے صرف دینی علوم ہی نہیں سیکھے بلکہ وہ دیگر علوم معاصرہ کے حصول میں بھی پوری دلچسپی لیتی تھیں ۔ ان علوم میں سے ایک علم الطب بھی ہے۔ اسی لیے عروہ بن زبیر کو تعجب ہوتا جب انھیں معلوم ہوتا کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو متعدد علوم میں مہارت حاصل تھی۔
|