اُمہات المؤمنین میں سے یہ ایک اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تیار رکھتی تھیں اور ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مستفید ہونا چاہتی تھیں ۔ سیّدہ رضی اللہ عنہا کو بھی معلوم نہ تھا کہ کب اسے بلا لیں ۔ اسی لیے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روزہ رکھنے کی اجازت نہیں مانگتی تھیں کہ مبادا آپ اجازت دے دیں جب کہ آپ کو میری ضرورت ہو ۔ اس طرح میں اپنی خوش نصیبی سے محروم ہو جاؤں ۔
وہ شعبان میں اس لیے روزے پورے کر لیتیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے اکثر دنوں میں روزے رکھتے۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دن کے اوقات میں اپنی بیویوں کی حاجت نہ ہوتی۔ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ جب ماہِ شعبان آجاتا تو اس کے بعد تو رمضان کی قضا کے لیے کوئی وقت نہ بچتا۔ اس لیے مزید تاخیر کی گنجائش نہ تھی۔[1]
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کس قدر مزاج شناس تھیں ؟!
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس قدر مزاج شناس تھیں کہ آپ کے چہرے سے ہی آپ کی اندرونی کیفیات مثلاً غمی ، خوشی وغیرہ بھانپ لیتی تھیں ۔ جونہی آپ کا رنگ متغیر ہوتا تو فوراً آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتیں ۔ جیسا کہ انھی سے مروی یہ حدیث ہے:
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب آندھی یا بادل دیکھتے تو آپ کے چہرے سے فوراً پتا چل جاتا۔ انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!لوگ جب بادل دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں ، اس اُمید کے ساتھ کہ اب بارش برسنے والی ہے اور میں نے محسوس کیا کہ جب آپ بادل دیکھتے ہیں تو آپ کے چہرے پر ناگواری کے اثرات نمایاں ہو جاتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! یہ بات مجھے چین سے نہیں بیٹھنے دیتی کہ ممکن ہے اس میں عذاب پنہاں ہو۔ گزشتہ اقوام میں سے ایک قوم پر آندھی کے ذریعے عذاب نازل ہوا اور ایک قوم نے بادل دیکھے تو کہنے لگے: یہ بادل ہم پر بارش برسائے گا( اور ان پر عذاب نازل ہو گیا)۔‘‘ [2]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش بھی رہتے پھر بھی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کی منشا سمجھ جاتی تھیں :
ذکوان رحمہ اللہ سے روایت ہے :
’’سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں : بے شک مجھ پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت
|