’’ان پر یہ اعتراض نہیں کیا جائے گا کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو عطیات میں افضل قرار دیتے تھے۔ کیونکہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ وہی کرتے تھے جو ان پر واجب تھا، یعنی جس کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم محبت کرتے تھے اس کی تعظیم کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی وہی کرتی تھیں جو ان کی ذات کے لائق تھا اور وہ کوئی چیز ذخیرہ نہیں کرتی تھیں ۔ اللہ ان پر اور ان کے باپ پر راضی ہو جائے۔‘‘[1]
۲۶۔ الیافعی[2]رحمہ اللہ (ت: ۷۶۸ ہجری):
آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ام المومنین صدیقہ بنت صدیق، فقیہہ، محدثہ، فصیحہ، محققہ رضی اللہ عنہا کے مناقب بہت زیادہ ہیں :
۱۔قرآن کریم ان کی براء ت کے لیے نازل ہوا۔
۲۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لحاف میں ہوتے تو جبریل علیہ السلام وحی لے کر آ جاتے۔
۳۔سب لوگوں سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انھی کے ساتھ محبت تھی جیسا کہ صحیح حدیث میں آ چکا ہے۔
۴۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے علاوہ کسی کنواری سے شادی نہیں کی۔
۵۔ان کی شان میں قیامت تک پڑھی جانے والی واضح و محکم آیات نازل ہوئیں ۔ عائشہ بنت ابی بکر رضی ا للہ عنہما ۔[3]
۲۵۔ ابن کثیر رحمہ اللہ (ت: ۷۷۴ ہجری):
آپ فرماتے ہیں :
’’سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین بیوی تھیں ۔ آپ نے ان کے علاوہ کسی کنواری کے ساتھ شادی نہیں کی اور صرف اس امت کی عورتوں سے ہی نہیں بلکہ تمام امتوں کی عورتوں سے وہ بڑھ کر عالمہ و فقیہہ تھیں ۔ جب اہل بہتان نے ان کے متعلق باتیں کیں اور جو ان کے منہ میں آیا وہ کہتے رہے تو اللہ تعالیٰ کو غیرت آ گئی اور ان کی براء ت کے لیے ساتوں
|