وصیت کی۔[1]
۸۔سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی توبہ و مغفرت کے بارے میں ائمہ شیعہ کی گواہیاں :
کلینی[2] نے الکافی میں اپنی سند کے ساتھ روایت کیاہے کہ میں نے ابو عبداللہ( علیہ السلام ) سے کہا: بلاشبہ میں نے تیرے باپ کو کہتے ہوئے سنا بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو اختیار دیا تو انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کو منتخب کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ان کی طلاق شمار نہ کیا اور اگر وہ اپنی رائے کو ترجیح دیتیں تو سب کی سب بائنہ ہو جاتیں ۔ تو اس نے کہا: یہ حدیث میرے والد سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں اور لوگوں کا اختیار دینے سے کیا تعلق ہے؟بلاشبہ اللہ عزوجل نے اپنے رسول علیہ السلام کو اس چیز کے لیے خاص کیا۔[3]
مجلسی نے کہا یہ روایت معتمد علیہ ہے۔ یہ روایت جعفر صادق[4] رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ سے اس نے ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی اور یہ کہ وہ ہمارے نبی کی ان بیویوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کیا۔
ابو جعفر محمد بن علی الباقر[5] سے روایت ہے کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ جنگ جمل میں عائشہ کی شمولیت کے بعد اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ اس نے کہا، میں اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہوں ، کیا تجھے معلوم نہیں کہ وہ کہا کرتی تھی کاش کہ میں درخت ہوتی کاش کہ میں پتھر ہوتی، کاش ! میں مٹی کا ڈھیلا ہوتی۔ بقول سائل میں نے کہا: اس کے ان اقوال کا کیا مطلب ہے؟
|