وغیرہ سارے ابواب موجود ہیں ۔[1]
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اللہ کے دین کی دعوت دینے والوں کو ہمیشہ نصیحت کرتی تھیں اور ان کی راہنمائی کرتی تھیں ۔ اس کی مثال عبید بن عمیر رحمہ اللہ کی ان کے پاس آمد کے وقت ہے:
’’آپ رضی اللہ عنہا نے دریافت کیا: یہ کون ہے؟ تو میں نے کہا: عبید بن عمیر۔ انھوں نے فرمایا: عمیر بن قتادۃ، میں نے کہا: جی اماں جان۔ انھوں نے فرمایا: مجھے پتا چلا ہے کہ تم لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنے بیٹھتے ہو اور لوگ بھی تمہارا وعظ سننے کے لیے تمہارے پاس آتے ہیں ۔ میں نے کہا: اے ام المومنین! بالکل اسی طرح ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: خبردار! تم لوگوں کو مایوس نہ کرو اور نہ انھیں ہلاکت میں ڈالو۔‘‘[2]
۳۔ ذاتی زندگی کو عمدہ نمونہ بنانے کا اسلوب:
بلاشبہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ساری زندگی ایمان، عمل صالح، حسن اخلاق، ایثار، قربانی، صبر، زہد وغیرہ کے لیے ضرب المثل بن گئی ہے۔ ان خوبیوں اور امتیازات کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے لیے پیشوائی کے درجے پر فائز ہو چکی ہیں ۔ اہل اسلام ہر زمانے میں ان کی سیرت کو اپنا راہنما مانتے آئے ہیں اور ان کی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ ہر مسلمان کے لیے واقعہ افک میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے صبر، توکل علی اللہ، مصیبت کو برداشت کرنے کا حوصلہ اور اللہ کے ساتھ حسنِ ظن مشعلِ راہ بنتے ہیں ۔ اس حادثے میں آپ رضی اللہ عنہا نے کتنی اذیت اور دُکھ صبر کے ساتھ برداشت کیے، حتیٰ کہ آپ رضی اللہ عنہا کہہ اٹھیں :
’’اللہ کی قسم! میرے علم کے مطابق کہ ان دنوں جتنے دکھ آل ابی بکر کو سہنے پڑے شاید کسی اور کو سہنے پڑے ہوں ۔‘‘[3]
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہر مسلمان کے لیے تنگ حالی میں صبر و یقین کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لیے بھی ایک نمونہ ہے۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
’’بے شک ہم آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر مہینا گزر جاتا، ہمارا چولھا نہیں جلتا تھا، ہمارا کھانا صرف کھجوریں اور پانی ہوتے تھے۔‘‘[4]
|