معاذہ عدویہ سمیت لاتعداد تابعی خواتین نے ان سے علم حاصل کیا۔[1]
دوسرا نکتہ:.... علمی مقام و مرتبہ کے اسباب
متعدد عوامل کی بنیاد پر سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو مذکورہ علمی مقام و مرتبہ تفویض ہوا، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
۱۔ذہانت و فطانت، قوت حافظہ و مستحکم یادداشت: .... بلاشبہ اس دعویٰ کی دلیل کے لیے اتنا کہہ دینا کافی ہو گا کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار احادیث روایت کرتی ہیں ۔ اس فضیلت کے پہلو بہ پہلو ان کو عربوں کے کثیر اشعار اور ضرب الامثال ازبر تھیں جو وہ موقع کی مناسبت سے بطور شواہد پیش کرتی تھیں ۔
۲۔تعلیم و تربیت اور نگرانی:....نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی نوعمری میں شادی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت و نگرانی میں بسر ہونے والا عرصہ (آٹھ سال اور پانچ ماہ تقریباً) اور اس عرصے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعلیم و تربیت کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔
۳۔نزولِ وحی :....ان کے کمرہ میں کثرت سے وحی کا نزول بھی ان کو علمی مقام و اعلیٰ مرتبہ دلانے کا ایک بنیادی سبب بنا حتیٰ کہ ان کے گھر کو ’’وحی خانہ‘‘ کا نام دے دیا گیا۔
۴۔مسائل کے بارے میں کثرتِ سوال:.... بہت کم ایسے مواقع آئے کہ وہ کچھ سنیں اور اس کے بارے میں سوال نہ کریں ۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ جس معاملہ کی حقیقت ان سے اوجھل ہوتی اس کی ٹوہ میں مسلسل رہتیں حتیٰ کہ اس معاملے کی تہ تک پہنچ جاتیں ۔
چنانچہ ابن ابی ملیکہ ان کے بارے میں کہتے ہیں : وہ جس چیز کے بارے میں سنتیں جو انھیں معلوم نہ ہوتی اسے پہچاننے تک اس کے متعلق پوچھتی رہتیں ، مثلاً:
(۱) جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ حُوْسِبَ عُذِّبَ))’’جس کا محاسبہ ہو گا اسے عذاب ہو گا۔‘‘ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فوراً عرض کیا: کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا:
﴿ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا ﴾ (الانشقاق: ۸)
’’سو عنقریب اس سے حساب لیا جائے گا، نہایت آسان حساب۔‘‘
|