ہوا ہے؟ کیا تو پاگل ہو گئی ہے؟ میں نے کہا: آپ نے مجھے بددعا دی، اس لیے میں اپنے ہاتھوں کو الٹ پلٹ رہی ہوں کہ ان دونوں میں سے کون سا کاٹا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی، پھر اپنے ہاتھ اٹھا کر پھیلا لیے اور یوں دعا کی:
((اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ بَشَرٌ، اَغْضَبُ کَمَا یَغْضَبُ الْبَشَرُ، فَاَیُّمَا مُوْمِنٍ اَوْ مَوْمِنَۃٍ دَعَوْتُ عَلَیْہِ، فَاجْعَلْہُ لَہٗ زَکَاۃً وَ طَہُوْرًا)) [1]
’’اے اللہ! بے شک میں بشر ہوں میں اسی طرح غصہ میں آ جاتا ہوں جس طرح ہر بشر غصے میں آ جاتا ہے۔ تو جس مرد و زن مومن کو میں بددعا دوں تو تو اسے اس کے لیے تزکیہ اور گناہوں سے طہارت کا باعث بنا دے۔‘‘
درج بالا شبہے کا ازالہ:
شیعوں کی عادت ہے کہ وہ اپنی خواہشات کے مطابق صحیح روایات میں کمی بیشی کر لیتے ہیں ، وہ ابتدائے حدیث نقل کر دیتے ہیں لیکن حدیث کا اختتام نقل نہیں کرتے۔ جس سے ہر منصف مزاج انسان کے لیے حدیث میں دعا کا معنی واضح ہوسکے۔ اسی معنی کی دوسری حدیث جو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے یوں ہے کہ وہ فرماتی ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمی آئے تو مجھے معلوم نہ ہو سکا کہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کس چیز کے بارے میں گفتگو کی۔ ان دونوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ دلا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں پر لعنت کی اور انھیں سخت برا کہا .... جب وہ چلے گئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! جو بھلائی اور نیکی ان دونوں نے کما لی ان سے پہلے کسی کو وہ لینے کی توفیق نہ ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اس سے تمہاری کیا مراد ہے؟ بقول عائشہ! میں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں پر لعنت کی اور انھیں ڈانٹا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تجھے معلوم نہیں ، میں نے اس پر اپنے رب کے آگے کیا شرط رکھی؟ میں نے کہا: اے اللہ! بے شک میں بھی ایک بشر ہوں ، جس مسلمان پر میں لعنت کروں اور اسے برا کہوں تو تو اسے اس کے لیے باعث تزکیہ و اجر بنا دے۔[2]
لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت میں بددعا مراد نہ تھی اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد واقعی حقیقی بددعا ہوتی تو
|