﴿ وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ﴾ (ابراہیم: ۴۲)
’’اور تو اللہ کو ہرگز اس سے غافل گمان نہ کر جو ظالم لوگ کر رہے ہیں ، وہ تو انھیں صرف اس دن کے لیے مہلت دے رہا ہے جس میں آنکھیں کھلی رہ جائیں گی۔‘‘[1]
مذکورہ بالا جاہلانہ عتراض کا جواب:
گانے والی دو لڑکیوں والی حدیث میں سرے سے کوئی طعن والی بات ہے ہی نہیں ۔[2] کیونکہ وہ مذکورہ دو لڑکیاں بالغ نہیں تھیں اور وہ عید کے دن ترانے یا اشعار وغیرہ پڑھتی تھیں۔ ان کا گانا آج کے گانے کی طرح نہیں تھا کہ جو شہوات کو بھڑکاتے ہیں اور حرام کے ساتھ اختلاط نظر اور حرام کے استعمال کی دعوت دیتے ہیں ۔ اس کی دلیل حدیث میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہ الفاظ ہیں اور وہ دونوں (بچیاں ) مشہور گائیکہ نہیں تھیں ۔ یعنی گانا ان کی عادت نہیں تھی اور نہ ہی وہ دونوں اسی وجہ سے مشہور و معروف تھیں ، بلکہ وہ جنگی کارناموں ، فخر و مباہات اور شجاعت و دلیری اور فتح و کامرانی کے اشعار پڑھ رہی تھیں جب کہ اس میں کوئی گناہ نہیں ۔
فتنہ پرور اور فتنہ پسند لوگ جو دعویٰ کرتے ہیں حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں کہ نعوذ باللہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ اور تخیلاتی گانے سنتے تھے اور وہ بھی گانے والی لڑکیوں کے منہ سے ۔ اس بہتانِ عظیم کے ردّ کی دلیل یہ ہے کہ اسی حدیث میں جو ذکر کیا انھوں نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں اپنے چہرے، کانوں اور سارے بدن کو کپڑے سے ڈھانپے ہوئے تھے تو یہ اس بات کی بھی واضح دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مکمل بے رخی و بے رغبتی کی ہوئی تھی۔ کیونکہ جو مقام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے عطا کیا تھا، وہ اس بات کا تقاضا کرتا تھا کہ آپ ان کے فعل پر توجہ اور دھیان نہ دیں ۔
لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ایسے مواقع کی نسبت سے ایسا کچھ کرنا
|