اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ڈرایا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے دوبارہ ایسی کوئی سازش نہ کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ يَعِظُكُمُ اللّٰهُ أَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ﴾ (النور: ۱۷)
’’اللہ تمھیں نصیحت کرتا ہے اس سے کہ دوبارہ کبھی ایسا کام کرو، اگر تم مومن ہو۔‘‘
۲۔لغوی اعتبار سے آیت کریمہ کا اطلاق سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور حفصہ رضی اللہ عنہا پر نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ تَحْتَ عَبْدَيْنِ﴾ (التحریم: ۱۰) تو کیا وہ دونوں (عائشہ و حفصہ رضی ا للہ عنہما ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور شخص کے بھی ماتحت تھیں ، اور وہ کون تھا؟ یا کیا وہ دونوں ایک ہی بندے کے پاس تھیں ؟ پھر جو تہمت رافضی ان دونوں پر لگاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے وہ خبر اپنے نبی کو کیوں نہیں بتائی۔ یا اللہ تعالیٰ نے تو آپ کو بتا دیا لیکن آپ اس پر ’’تقیہ‘‘ کرتے ہوئے خاموش رہے اور اسے مخفی رکھا۔[1]
دوسرا بہتان:
اہل روافض کہتے ہیں : ’’سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے قرآن میں تحریف کی ہے۔‘‘
روافض کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’قرآن محرف ہے اور اس قول کی وجہ سے وہ اہل سنت کے نزدیک کافر ہے، کیونکہ اہل سنت کے نزدیک جو قرآن میں تحریف کا عقیدہ رکھے وہ کافر ہے۔‘‘[2]
روافض اس دعویٰ کے ثبوت کے لیے اہل سنت و الجماعت کی کتابوں سے دلائل پیش کرتے ہیں ۔ جن میں سے چند ذیل میں درج کیے جاتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلّٰهِ قَانِتِينَ﴾ (البقرۃ: ۲۳۸)
’’سب نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی اور اللہ کے لیے فرماں بردار ہو کر کھڑے رہو۔‘‘[3]
|