گواہی کے مطابق خاتم الانبیاء کا گھرانہ تمام گھروں سے افضل و اشرف اور اطہر ہے۔[1]
آئندہ جب ہم واقعہ افک پر گفتگو کریں گے تو ان شاء اللہ وہاں امی عائشہ کے معترضینکی رسوائیوں میں مزید اضافہ کریں گے۔[2]
دوسرا انداز:
وہ ضعیف و منکر روایات جو اہل السنہ کی کتابوں میں موجود ہیں ان سے کٹ حجتیاں نکالنا۔
روافض کا یہ معمول ہے کہ اپنے شبہات اور افتراء ات کو تقویت دینے کے لیے اہل سنت کی کتابوں میں مروی ضعیف، منکر، موضوع اور منسوخ روایات کو اپنے دعویٰ کی تائید میں پیش کرتے ہیں ۔ پھر وہ اہل سنت پر وہ احادیث چپکا دیتے ہیں اور پھر خود ہی ان سے جواب طلب کرتے ہیں ۔ مذکورہ بالا بہتان میں خصوصی طور پر کسی شیعہ نے نہایت ضعیف حدیث سے استدلال کیا، بلکہ وہ روایت سرے سے باطل ہے۔ لیکن اہل سنت کی کتابوں میں موجود ہے۔ اس لشکر کا سرغنہ عبدالحسین[3] نامی ایک شیعہ ہے۔ جس نے اپنی کتاب ’’المراجعات‘‘ میں یہ روایت تحریر کی ہے۔
یہ روافض جس روایت پر اعتماد کرتے ہیں وہ اس طرح ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’ماریہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بطور ہدیہ بھیجا گیا اور اس کے ساتھ اس کا چچا زاد بھی تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ وہ لڑکا ایک بار ماریہ کے ساتھ ہم بستری کر بیٹھا اور وہ حاملہ ہو گئی۔ عائشہ کہتی ہیں : ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کے چچا زاد کے ساتھ علیحدہ رہائش دے دی۔‘‘
بقول عائشہ رضی اللہ عنہا : ’’بہتان تراشوں اور جھوٹ موٹ کی اڑانے والوں نے یہ کہہ دیا کہ آپ کو بچے کی ضرورت تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور کے بچے پر اپنا دعویٰ کر دیا اور اس کی والدہ کا دودھ بہت کم تھا، اس کی ماں نے اسے دودھ پلانے کے لیے ایک دودھیل بکری خریدی۔ چنانچہ اس بکری کے دودھ پر وہ پلا بڑھا۔ اس پر خوب گوشت آ گیا۔ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے میرے پاس لے آئے اور فرمانے لگے: تجھے
|