روایت کی کہ مروان بن حکم نے کہا: جب بصرہ میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں شکست دے دی تو تمام مغلوب لوگوں کے اموال انھیں لوٹا دئیے، جن کے پاس کوئی گواہ تھا اس کی گواہی قبول کی اور جن کے پاس گواہ نہیں تھا تو ان سے حلف لے کر ان کے اموال لوٹا دئیے۔ بقول راوی کسی نے کہا: اے امیر المومنین! آپ ہمارے درمیان مال غنیمت اور قیدی تقسیم کریں ۔ جب لوگوں کا اصرار بڑھا تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا: تم میں سے کون اپنے حصے میں ام المومنین کو لے گا۔ تب وہ خاموش ہو گئے۔[1]
۷۔سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے باہمی تعلقات:
حمیری نے اپنی سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جب کوئی کھانا تیار کرتی تو اس میں سے ہماری اماں جی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا حصہ الگ کر دیتی تھیں۔[2]
بحار الانوار میں مجلسی[3] نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ میں بازار گیا ایک درہم کا گوشت اور ایک درہم سے مکئی کا آٹا خریدا اور دونوں چیزیں لا کر فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دے دیں ۔ جب وہ روٹی اور سالن پکاکر فارغ ہوئیں تو کہنے لگیں اگر آپ جا کر میرے والد کو بلا لائیں ؟ تو میں ان کے پاس گیا تو وہ لیٹے ہوئے فرما رہے تھے: میں بھوک کے بستر سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمارے پاس کھانا موجود ہے۔ چنانچہ آپ نے میرا سہارا لیا اور ہم فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف چل پڑے جب ہم گھر میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا کھانا لے آ۔ پھر فرمایا: اس میں سے عائشہ کے لیے رکھ لو۔ چنانچہ اس نے رکھ دیا۔[4]
اسی طرح ابن رستم طبری[5] نے ’’دلائل الامامۃ‘‘ میں روایت کی کہ سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جب وفات پائی تو وہ عائشہ( رضی اللہ عنہا )سے راضی تھیں اور یہ کہ اس نے عائشہ( رضی اللہ عنہا ) کے لیے بارہ اوقیہ چاندی کی
|