سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی اولاد میں سے اپنی وصیت سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے کی:
سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی جملہ اولاد میں سے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنی وصیت سونپی کہ وہ اسے نافذ کریں ۔ اسی وصیت میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ بھی کہا کہ ’’میں نے تمھیں ایک باغیچہ[1] ہبہ کیا تھا۔ لیکن میرے دل میں اس کے بارے میں ایک خلش ہے، لہٰذا تم وہ باغیچہ میرے ترکے میں شامل کر دو۔‘‘ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسی وقت کہا: ’’یہ صحیح ہے۔‘‘ انھوں نے وہ باغیچہ والد محترم کی میراث میں شامل کر دیا۔ پھر سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ وضاحت کر دی کہ بے شک جب سے مسلمانوں کا معاملہ (خلافت) ہمارے سپرد ہوا ہے ہم نے ان کے مال سے کبھی ایک دینار یا ایک درہم تک نہ لیا۔ تاہم ہم نے ان کے غلہ جات سے اپنے پیٹوں میں کچھ سخت[2] لقمے ضرور ڈالے اور ہم نے اپنے اجسام پر ان کے کپڑوں سے چند کھردرے کپڑے ضرور پہنے اور ہمارے پاس مسلمانوں کی غنائم میں سے نہ کثیر ہے نہ قلیل ہے، سوائے اس حبشی غلام اور ایک پانی ڈھونے والے اونٹ کے[3] اور کچھ میلے کچیلے کپڑے۔[4] تو جب میں فوت ہو جاؤں تو تم یہ چیزیں عمر رضی اللہ عنہ کو دے دینا اور خود ان چیزوں سے اپنی براء ت کا اعلان کرنا۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : ’’میں نے ایسے ہی کیا۔‘‘جب قاصد سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا وہ اتنا روئے کہ ان کے آنسوؤں سے زمین تر ہو گئی اور وہ کہہ رہے تھے:
’’اللہ ابوبکر پر رحم کرے، بے شک انھوں نے اپنے بعد آنے والوں کو تھکا دیا۔ اللہ ابوبکر پر رحم کرے بے شک انھوں نے اپنے بعد آنے والوں کو مشقت میں ڈال دیا۔‘‘[5]
دوسرا نکتہ: ....سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا عہد عمر رضی ا للہ عنہما میں
امیر المؤمنین سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی علمی قدر و منزلت ظاہر ہونے لگی۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سمیت کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جب بھی کوئی مشکل پیش آتی، خصوصاً وہ معاملات جن کا تعلق لوگوں
|