اسے ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ۔ بقول شاعر:
وَ لَیْسَ یَصِحُّ فِی الْاَذْہَانِ شَیْئٌ
اِذَا احْتَاجَ النَّہَارُ اِلٰی دَلِیْلٍ
’’جب دن کو دلیل کی ضرورت ہو تو ذہنوں میں کچھ بھی صحیح نہیں ہو سکتا۔ ‘‘
اس سے روافض پر یہ لازم آتا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور رسالت پر طعن کریں کیونکہ آپ کے گھر میں طعن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر طعن لازم آتا ہے اس لیے غور کرنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ امام ابو الوفاء بن عقیل حنبلی پر رحم کرے۔ وہ کہتے ہیں تم ذرا انصاف سے دیکھو۔ کس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری کے ایام گزارنے کے لیے بیٹی کا گھر منتخب کیا اور اپنی جگہ پر نماز پڑھانے کے لیے اس کے باپ کا انتخاب کیا تو پھر یہ کیا غفلت کے پردے ہیں جنھوں نے روافض کے دلوں کو ڈھانپ رکھا ہے اور یہ حقیقت گونگے بہروں سے نہیں چھپ سکتی تو بولنے اور دیکھنے والوں سے کیسے چھپ گئی؟[1]
پنجم:.... اسآدمی کے بارے میں کیا خیال ہے جو برسر منبر لوگوں کے جم غفیر کے سامنے آپ کی بیوی کو گالیاں دے۔اللہ کی قسم! یہ مردانگی نہیں ہے .... اور نہ آداب اور نہ اخلاق سے اس اسلوب کا کوئی ادنی سا تعلق ہے۔ تم تو اپنی غلیظ فطرت کی بنا پر ایسے گھٹیا الزام سرور کونین خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ، ان کے گھر اور ان کی محبوب بیوی پر لگا رہے ہو۔ اللہ کی پناہ!
تیسرا شبہ:
روافض کی بے حیائی پر مبنی ہرزہ سرائی کہ ’’عائشہ رضی اللہ عنہا غیر محرموں سے حجاب نہیں کرتی تھیں ۔‘‘
روافضہ کہتے ہیں کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا مردوں سے حجاب نہ کرتی تھیں ۔ ان میں سے ایک یوں کہتا ہے: یہ تو غیر مناسب ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے وضو کریں ، اپنے ہاتھ دھوئیں ، اپنے دونوں رخسار دھوئیں ، اپنا چہرہ دھوئیں اور اپنے کانوں کا مسح کریں ۔ جیسے کہ (سنن نسائی) میں ہے .... اور اسی طرح یہ بھی نامناسب ہے کہ وہ مردوں کے سامنے غسل کریں ۔ اس نے صحیحین وغیرہ میں مروی عائشہ رضی اللہ عنہا کے غسل والی حدیث تحریر کی اور روافض کو یہ شبہ دو درج ذیل احادیث کی وجہ سے لگا۔
حدیث اول:.... عبدالملک بن مروان بن حارث سے روایت ہے اس نے کہا مجھے ابو عبداللہ سالم سبلان نے خبر دی۔عائشہ رضی اللہ عنہا ان کی ادائیگی امانت پر تعجب کرتیں اور انھوں نے مجھے دکھایا کہ
|