اس بہتان کا جواب:
یہ روایت اہل تراجم نے مذکورہ سہیل بن ذکوان کے تعارف کے ضمن میں تحریر کی۔[1]
اہل جرح و تعدیل کا یہ اسلوب ہے کہ وہ ضعیف یا متروک راوی کے حالات کے ضمن میں اس کے ضعف کی دلیل کے طور پر اس کی روایت کردہ کچھ ضعیف روایات بھی لکھ دیتے ہیں تو یہ مذکورہ روایت بھی سہیل بن ذکوان کے ضعف کی دلیل ہے۔ اسی طرح سہیل بن ذکوان سے جس راوی نے یہ روایت لی اس نے بھی اس کی کذب بیانی کی وضاحت کی اور وہ عباد ہے۔ اس نے کہا: ہم اس پر جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے۔[2]
اس میں کوئی شک نہیں کہ راوی جس سے روایت کرتا ہے وہ اس کے احوال دوسروں سے زیادہ جانتا ہے۔
یحییٰ بن معین نے کہا: ’’وہ کذاب ہے۔‘‘[3]
امام مسلم،[4] نسائی[5] اور ذہبی[6] نے اسے متروک کہا ہے۔ ابو داؤد نے کہا: یہ کوئی چیز نہیں یعنی غیر معتبر ہے۔ [7]
ابن عدی نے کہا، یہ سہیل بن ذکوان اگرچہ جھوٹ کی طرف منسوب ہے، تاہم یہ احادیث کثیرہ کا راوی نہیں ۔ لوگوں نے اسے اس کی زیادہ روایات کی نسبت سے جھوٹا نہیں کہا۔ کیونکہ اس کی روایات قلیل ہیں بلکہ علماء نے اس کے جھوٹ کی وضاحت کے لیے اس کی وہ روایات بیان کی ہیں ۔ جیسے ہم نے بیان کیا کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سیاہ رنگ کی تھیں اور ابراہیم نخعی کی آنکھیں بڑی تھیں ۔ حالانکہ عائشہ گوری رنگت کی تھیں اور ابراہیم نخعی کانا تھا۔ تو وہ جس قدر روایت کرتا ہے۔ اس قدر ہی ضعیف ہے۔[8]
ابن حبان نے کہا: ’’ وہ شیوخ کو دیکھنے اور ان سے روایات لینے کا دعوے دار تھا حالانکہ اس نے ان کو
|