دوسرا مبحث:
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے منہج علمی کے قواعد و ضوابط
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا واضح، مدلل علمی منہج کا اتباع کرتی تھیں ۔ جس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں :
اوّل:....کتاب و سنت میں وارد مسائل کی توثیق:
اس کی بہترین دلیل یہ ہے کہ جب ان کے سامنے ابن عمر رضی ا للہ عنہما کا یہ قول آیا کہ ’’میں یہ پسند نہیں کرتا کہ احرام کی حالت میں ، میں اس حال میں صبح کروں کہ خوشبو کی لپٹیں مجھ سے پھوٹ رہی ہوں ۔ بلکہ مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ اپنے جسم پر آک کا دودھ مل لوں ۔‘‘ تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام کے وقت آپ کو خوشبو لگائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں میں چکر لگایا اور پھر آپ نے صبح احرام کی حالت میں کی۔‘‘[1]
تو انھوں نے کہا:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اتباع کی زیادہ حق دار ہے۔‘‘[2]
مسروق رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ٹیک لگائے ہوئے تھا تو انھوں نے فرمایا: اے ابو عائشہ! تین میں سے جس نے ایک بات بھی کی اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ بولا۔ میں نے کہا: وہ کیا ہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
۱۔ ’’جو شخص یہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا۔‘‘
مسروق رحمہ اللہ کہتے ہیں : میں ٹیک چھوڑ کر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور عرض کیا: اے سیّدہ عائشہ! آپ مجھے جلدی میں نہ ڈالیں ، کچھ مہلت دیں ، کیا اللہ عزوجل نے یہ نہیں فرمایا:
﴿ وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ﴾ (التکویر: ۲۳)
’’اور بلاشبہ یقیناً اس (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اس (جبریل) کو ( آسمان کے) روشن کنارے پر
|