’’اور عمران کی بیٹی مریم کی (مثال دی ہے) جس نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی ایک روح پھونک دی اور اس نے اپنے رب کی باتوں کی اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اطاعت کرنے والوں میں سے تھی۔‘‘
اسی طرح یوسف علیہ السلام کی عزت پر بھی بہتان لگایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بھی اس بہتان سے بری کر دیا۔ ہم نے کثرت سے پڑھا اور سنا ہے کہ ہر زمانے میں سچے داعیوں اور جلیل القدر علماء کی عزتوں پر تہمتیں لگائی جاتی رہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہی غالب رہتا ہے کہ وہ اہل ایمان کو نکھارتا ہے اور کافروں کو مٹا دیتا ہے۔ کیونکہ کوئی زمانہ ایسا نہ گزرا جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دوستوں کو پاک دامن اور گناہوں کی دلدل سے محفوظ قرار نہ دیا ہو اور ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی غالب قدرت سے مضبوطی سے گرفتار کر لیتا ہے جو گناہ اور جرم سے بھرپور سازشیں کرتے ہیں ۔
دوسرا نکتہ:.... واقعہ افک کے زمانۂ جدید میں مثبت اثرات
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جس گروہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طاہر و کریم گھرانے پر تہمت لگائی اور اس میں شکوک و شبہات پیدا کیے وہ آج بھی موجود ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک گروہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو زنا وغیرہ جیسے گھناؤنے افتراء ات کا نشانہ بناتا رہتا ہے۔[1]جبکہ اللہ تعالیٰ نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان جھوٹی اور من گھڑت تہمتوں سے بہت پہلے سے ہی بری کر دیا تھا۔ لیکن ظالموں کا یہ گروہ پھر وہی تہمتیں لے کر لوٹ آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ يَعِظُكُمُ اللّٰهُ أَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ﴾ (النور: ۱۷)
’’اللہ تمھیں نصیحت کرتا ہے اس سے کہ دوبارہ کبھی ایسا کام کرو، اگر تم مومن ہو۔‘‘
حالانکہ گزشتہ اور موجودہ زمانے کا ہدف ایک ہی ہے جس کا مقصد اسلام اور اہل اسلام کی تنقیص ہے۔ لیکن موجودہ زمانے کا بہتان زمانہ قدیم کے بہتان سے زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ یہ نزول قرآن کے بعد ظاہر ہوا ہے جبکہ بہتان قدیم سے براء ت تو قرآن کریم میں بیان ہو چکی ہے اور اسے دہرانے کی
|