معنی کا تقاضا ہے کہ آیت اپنے سیاق و سباق سے لاتعلق اور منقطع ہو جائے۔ جو نظم قرآنی کے خلاف ہے۔ بہرحال جو عمر بن ابی سلمہ رضی ا للہ عنہما کی روایت میں الفاظ ہیں کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول ! کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اپنی جگہ پر رہو اور تم بھلائی پر ہو۔‘‘اس حدیث میں روافض کو وہم ہوا ہے اور اسی وہم کی بنیاد پر انھوں نے گمان باطل کر لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو اپنے اہل بیت میں شمار کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ جہالت کی انتہا ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سوال کے مطابق ہی انھیں جواب دیا۔
یہ آیت ام سلمہ کے اور ان کی سوکنوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ اس لیے انھیں تو ان (چادر والوں ) کے ساتھ الحاق کی کوئی ضرورت نہ تھی اور مزید یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے دعا کرتے کہ اللہ ان سے نجاست دُور کر دے اور انھیں پاک کر دے۔ ایسی چیز کو حاصل کرنے کی دعا جو حاصل ہو چکی ہو۔ یہ آداب دعا کے منافی ہے۔ جیسا کہ شہاب الدین قرافی نے تحریر کیا ہے کہ دعا کی دو اقسام ہیں : (۱) جس دعا کی اجازت دی گئی ہو۔ (۲) جو دعا ممنوع ہو۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی تعلیم کے لیے تھا۔
کچھ روایات کے الفاظ یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کہا: ’’بے شک تم تو نبی کی بیوی ہو۔‘‘
یہ الفاظ مراد سمجھنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ’’بے شک تو بھلائی پر ہے‘‘ سے زیادہ واضح ہیں ۔[1]
روافض یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ تطہیر سے پہلی آیات مونث کے صیغہ کے ساتھ ہیں جبکہ آیت تطہیر مذکر کے صیغہ کے ساتھ آئی ہے۔ آیت تطہیر کے بعد والی آیت بھی مونث کے صیغے کے ساتھ آئی ہے۔ چنانچہ اس سے مراد صرف علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم ہیں ،کیونکہ وہ مذکر ہیں ۔
جواب:
اوّل:.... اثنی عشریہ آیت تطہیر میں لفظ (عنکم) اور (یطہرکم) سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ اس میں صرف مذکروں کو خطاب ہے ﴿ إِنَّمَا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا﴾اس لیے امہات المومنین اہل بیت والے جملے میں شامل نہیں ۔ یہ استدلال اور دعویٰ باطل ہے اور ان کی تردید اس طرح ہوتی ہے کہ جب مذکر اور مونث کے صیغے اکٹھے آتے ہیں تو مذکر
|