’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے کوئی وصیت نہیں کی حالانکہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سینے سے لگایا ہوا تھا۔‘‘
ایک روایت میں ہے:
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری گود میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبان منگوایا اور اس وقت آپ کا جسم اطہر ڈھیلا ہو گیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت میری گود میں تھے مجھے احساس تک نہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں ، تو پھر کب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے وصیت کی۔‘‘[1]
دوسرا نکتہ:....علوم قرآن پر دسترس
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے زمانے کی عظیم مفسرۂ قرآن شمار ہوتی ہیں ۔ اس عظیم مرتبے تک پہنچنے میں ان کی معاونت بچپن سے قرآن کریم کی سماعت نے کی۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں :
’’بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مکہ میں جب قرآن کا نزول ہوتا تھا تو میں اس وقت بہت چھوٹی اور ایک کھیلنے کودنے والی لڑکی تھی۔ اس وقت میں نے یہ آیت سنی تھی:
﴿ بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ﴾ (القمر: ۴۶)
’’بلکہ قیامت ان کے وعدے کا وقت ہے اور قیامت زیادہ بڑی مصیبت اور زیادہ کڑوی ہے۔ ‘‘
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ’’سورۃالبقرہ‘‘ اور ’’سورۃ النساء‘‘ نازل ہوئیں تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ چکی تھی۔‘‘[2]
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی معاشی و سماجی پرورش نے قرآن کریم کے نزول کے دوران بکثرت ان کی موجودگی کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ چنانچہ تقریباً وہ نو سال مہبطِ وحی کے قریب رہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لحاف میں ہوتے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی رہتی لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی دوسری بیوی کے لحاف میں ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل نہ ہوتی۔[3]
|