ممکن تھا کہ آپ اس کے قریب کھڑے ہو جاتے۔ بجائے اُن کے آپ اُن کی ٹھوڑی کے نیچے اپنا مبارک کندھا رکھے رہتے اور وہ آپ کے کندھے پر سر ٹیک کر اپنے قیام کو طویل کرتی رہتیں اور یہ بھی ممکن تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے چلے جاتے اور ان کے اختتام کھیل کا انتظار نہ کرتے۔ بلکہ زیادہ مناسب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہی تھا کہ آپ آغاز میں کچھ دیر وہاں رہتے پھر امت کی حاجات کے لیے آپ وہاں سے چلے جاتے۔
لیکن یہ سارے امکانات سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حق کے سامنے معدوم تھے، چونکہ:
۱۔یہ معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان کے لیے محبت کی عظیم گواہی ہے اس میں کسی قسم کا شک نہیں ۔
۲۔وہاں تا دیر قیام دوسری گواہی ہے۔
۳۔حالت قیام تیسری گواہی ہے۔
۴۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے کندھے کا سہارا فراہم کر کے تادیر وہاں جمے رہنا چوتھی گواہی ہے۔
۵۔ان کی نوعمری کی رعایت اور آپ کا محبت بھرا صبر اور آپ کا شفقت بھرا انداز جیسے متعدد گواہ ہیں ۔
یہ واقعہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلتوں سے لبریز ہے جن کی کوئی انتہا نہیں کہ تمام مخلوقات سے افضل ہستی کے دل میں ہماری امی سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی کیا قدر و منزلت تھی۔ اللّٰہم صلی علی محمد و آل محمد۔اسی طرح عید کی مناسبت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو کھیل کود کے لیے فرصت مہیا فرماتے۔ اس میں خود بھی شامل ہو جاتے۔
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے تو میرے پاس دو لڑکیاں جنگ بُعاث[1] کے اشعار گا رہی تھیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم آتے ہی بستر پر دراز ہو گئے اور اپنی کروٹ بدل لی۔ اسی اثنا میں میرے والد محترم سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور مجھے ڈانٹنے لگے اور کہنے لگے: شیطان کی بانسریاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کیوں ؟ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’تم انھیں کچھ نہ کہو۔‘‘ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ ہٹ گئی تو میں نے ان دونوں لڑکیوں کو ہاتھ کے ساتھ اشارہ کیا۔ وہ دونوں جلدی سے نکل گئیں ۔‘‘[2]
|