وہ کہنے لگی میں کیسے طہارت حاصل کروں ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو اس کے ساتھ طہارت حاصل کر۔‘‘
اس عورت نے پھر پوچھا: کیسے؟ آپ نے فرمایا: ’’سبحان اللہ! تو طہارت حاصل کر۔‘‘
تو بقول سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے میں نے اسے اپنی طرف کھینچا اور کہا تو اس کے ساتھ خون کے نشانات صاف کر لے۔[1]
۴۔سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھلائی کے راستے کی طرف اور دعوت الی اللہ کے لیے مسلمان عورت کے لیے بہترین نمونہ اور عمدہ مثال تھیں ۔
۵۔متعدد قرآنی آیات ان کے معاملے کی وجہ سے نازل ہوئیں جن سے امت کے لیے متعدد احکام شریعت مستنبط ہوئے جیسے آیت تیمم کا نزول وغیرہ۔
۶۔سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت اس سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سامان دنیا اور اللہ و اس کے رسول اور آخرت کے گھر میں سے ایک منتخب کرنے کا اختیار دیا تو انھوں نے بلاتردد اللہ، اس کے رسول اور دارِ آخرت کو منتخب کیا اور دنیا کے فانی و زائل سامان کی طرف توجہ نہ دی۔ اس انتخاب میں ان کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایمان اور عمل صالح کے راستے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید اور نصرت و حمایت کا واضح اعلان تھا۔[2]
۲۔ خلفائے راشدین کے عہد میں ان کے دعوت دین میں اثرات:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کے بعد خلفائے راشدین کے مبارک عہد دعوت الٰہی کی تاریخ کا اہم سنگ میل ہیں کیونکہ یہ زمانے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد آنے والے ادوار کے درمیان ایک مضبوط پل تھے۔ اس عرصے میں دعوت دین کے لحاظ سے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے خصوصی اثرات ظاہر ہوئے۔
۱۔سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا مسلمانوں تک دعوت دین پہنچانے میں شدید حرص رکھتی تھیں ۔ اس دَور کے مسلمانوں ، صحابہ و کبار تابعین نے ان سے خوب دینی تعلیم حاصل کی بالخصوص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ سنتیں جن پر صرف آپ کے اہل خانہ ہی مطلع ہوتے تھے۔
۲۔سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا خلفائے راشدین اور کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اہم امور میں بہترین مشیر رہیں ۔
|