لہٰذا جس کا یہ حال ہو اس کی روایت مردود ہوتی ہے۔
اس روایت میں ایک راوی عبدالغفار بن قاسم بھی ہے جو شیعہ اور متروک ہے، شراب پی پی کر بے ہوش ہو جاتا تھا۔ اس کی روایت کو دلیل بنانا جائز نہیں ۔[1]
اس روایت کے راویوں کی مزید چھان پھٹک کی بجائے اتنا ہی اس روایت کے ردّ کے لیے کافی ہے۔
ساتواں بہتان:
وہ کہتے ہیں کہ
’’جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میرے گھر والوں میں سے میرا محبوب ترین شخص آئے اور آ کر میرے ساتھ کھانا کھائے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے علی رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ آنے دیا۔ وہ علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اور آپ نے فجر کی نماز پڑھائی تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے تو میں بھی اٹھ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کہیں جانے کا ارادہ کرتے تو اس کے بارے میں مجھے بتلا دیتے اور جب آپ مذکورہ جگہ پر دیر لگاتے، میں آپ کا حال معلوم کرنے کے لیے آپ کی طرف چلا جاتا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لمحے کی جدائی سے میرا دل بے سکون ہو جاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتایا کہ میں عائشہ کے گھر جا رہا ہوں ۔ آپ چل پڑے اور میں فاطمہ الزہرا کے گھر کی طرف چلا گیا۔ میں حسن و حسین کے ساتھ تھا میں اور وہ ان دونوں بچوں کے ساتھ نہایت خوشی و سکون محسوس کر رہے تھے۔ پھر میں اٹھا اور عائشہ کے دروازے کی طرف چلا گیا۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اس نے کہا: کون ہے؟ میں نے کہا کہ میں علی ہوں ۔ اس نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے ہیں ۔ میں واپس چلا آیا۔ میں نے سوچا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے ہیں جبکہ عائشہ گھر میں موجود ہو، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں نے واپس آ کر دروازہ کھٹکھٹایا تو اس نے مجھ سے کہا: کون ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ میں علی ہوں ۔ تو اس نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضروری کام کر رہے ہیں ۔ میں شرماتے ہوئے دروازہ کھٹکھٹانے کی بجائے واپس آ گیا اور مجھے سینہ میں اتنا خلجان ہونے لگا جو میری برداشت سے باہر تھا۔ میں جلد ہی واپس آیا، تو زور زور سے دروازہ بجانے لگا۔
|