دیکھا تک نہ تھا، پھر بھی وہ ان سے روایت کرتا تھا۔‘‘[1]
ابن مدینی نے کہا: ہمیں محمد بن حسن واسطی نے سہیل بن ذکوان کے واسطے سے حدیث سنائی۔ اس نے کہا میں واسط میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملا .... انتہیٰ۔‘‘
جھوٹ ایسا ہی ہوتا ہے کیونکہ حجاج کے واسط شہر کا منصوبہ بنانے سے ایک طویل زمانہ پہلے عائشہ فوت ہو چکی تھیں ۔[2]
اس مقام پر متاخرین میں سے بیشتر کذاب لوگوں کے تذکرہ سے ہم صرف نظر کرتے ہیں ، اس لیے کہ جن کے پاس علم و عقل اور ایمان کی رتی بھر بھی ہو گی وہ بخوبی سمجھ لے گا کہ یہ روایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر موضوع و مکذوب ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک دامن بیوی سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ان الزامات سے بری ہیں اور اگر کوئی بیان کرنے والا ان جھوٹی روایات کو اکٹھا کر کے ان کو ردّ کرنے لگے تو اس کی تو عمر ہی اس کام میں لگ جائے۔ چنانچہ ابن العربی رحمہ اللہ نے کہا: زمانہ جاہلیت کی موشگافیوں کا پیچھا نہیں کرتا، کیونکہ یہ لامحدود ہیں ۔[3]
ہم قارئین کرام سے معذرت کرتے ہوئے ان روایات میں سے صرف ایک روایت تحریر کر کے اس باب کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔
بے حیائی پر مبنی ایک روایت:
روافض کا کہنا ہے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر کیا میرے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی خادم نہیں تھا اور آپ کے پاس صرف ایک لحاف تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عائشہ بھی تھیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے اور عائشہ کے درمیان سوتے تھے۔ ہم تینوں کے اوپر اس کے علاوہ کوئی لحاف نہیں ہوتا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد کے لیے اٹھ جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے اور عائشہ کے درمیان اپنے ہاتھ سے لحاف رکھ دیتے حتیٰ کہ لحاف ہمارے نیچے بچھے ہوئے بستر کے ساتھ لگ جاتا۔[4]
اس طرح کے جھوٹ صرف وہی بنا سکتا ہے جس کا نہ کوئی اخلاق ہے نہ کوئی عہد ۔ نہ ہی
|