ساتواں شبہ:
’’بڑی عمر میں رضاعت کا مسئلہ اور اس مسئلہ میں روافض کے مکر و فریب کے بارے میں تنبیہات۔‘‘
بڑی عمر میں رضاعت کا مسئلہ وہ مسئلہ ہے جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بھی اختلاف واقع ہوا اور ان کے بعد سلف اور خلف امت میں بھی یہی اختلاف جاری ہے۔ فریقین کے دلائل و مفاہیم میں طویل تنازع برپا ہے اس میں سے کئی فروعی مسائل اخذ ہوتے ہیں جن پر بحث و تحقیق مفید ہے لیکن ہمارا مقصد یہاں تمام مسئلہ کی تحقیق او راجح نکالنا نہیں ۔ تاہم ہم نے اسے مستقل مسئلے کے طور پر اس لیے اہمیت دی ہے تاکہ روافض کی ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق سوچی سمجھی سازش کو بے نقاب کیا جائے۔ تو ہم پہلے روافض کی آراء کا خلاصہ تحریر کریں گے اس کے بعد ان کے مکر و فریب کے تانے بانے کو ادھیڑیں گے۔
مرتضی عسکری رافضی نے اپنی کتاب ’’احادیث ام المومنین عائشہ‘‘ میں رضاعت کبیر کے مسئلہ پر طویل کلام کیا ہے اور اس میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی رائے کا تذکرہ بھی کیا ہے، چنانچہ ہمیں بھی اسی سے غرض ہے ہم امی جان عائشہ کی رائے کی ایسی توجیہ پیش کریں گے جسے ہر عقل سلیم اور منصف مزاج بسر و چشم قبول کرے گا۔[1]
مرتضی عسکری لکھتا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا سوال کرنے والوں سے ملاقات کی محتاج تھیں اور گھمبیر سیاسی مسائل میں گھر گئی تھی۔ شاید یہ دو اسباب تھے جن کی وجہ سے اس نے سالم مولی ابی حذیفہ[2] کی رضاعت والی حدیث کی تاویل کر لی اور یہ کہ سیّدہ عائشہ کی رائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام زوجات کی احادیث کے خلاف ہے۔[3]
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس مشکل کا حل اس طرح نکالا کہ ایک آیت نکالی جو اس کی رائے کی تائید کرتی ہے اور فتویٰ دے دیا کہ حرمت رضاعت پانچ بار دودھ پلانے سے ثابت ہو جاتی ہے اور جس آیت میں دس بار دودھ پلانے سے حرمت ثابت ہونے کی بات ہے اس کا جواب یہ دیا کہ آیت رجم اور دس بار رضاعت سے حرمت والی آیت اتری اور وہ صحیفہ میرے بستر کے نیچے تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو ان کی وفات کی وجہ سے ہماری توجہ ادھر ہوئی تو پالتو بکرا آیا اور وہ صحیفہ کھا گیا۔
|