Maktaba Wahhabi

636 - 677
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِکَ شَیْئًا فَأُخِذَ بِہِ فِی الدُّنْیَا فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَہُ وَطَہُورٌ)) ’’جس نے کوئی گناہ کیا اور دنیا میں پکڑا گیا تو وہ (حد کا نفاذ) اس کے گناہ کا کفارہ اور اسے پاک کرنے کا ذریعہ بن جائے گا۔‘‘[1] و: .... عبداللہ بن ابی بن سلول پر حد کیوں نہ قائم کی گئی؟ سوال:.... حد قذف تین اصحاب پر تو قائم ہوئی لیکن اس بہتان کا مرکزی کردار (ماسٹر مائنڈ) عبداللہ بن ابی بن سلول تھا اس پر حد کیوں نہ قائم کی گئی؟ جواب:.... اس شبہ کا جواب کئی طرح سے دیا جاتا ہے: ۱۔ایک قول یہ ہے کہ حدود کا قیام ان کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے تخفیف اور کفارے کا سبب ہیں جب کہ مشرک و منافق تخفیف اور کفارہ کے اہل نہیں ہوتے۔ ۲۔ایک قول یہ بھی ہے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول افواہ کو بڑھا چڑھا کر لوگوں کو سناتا لیکن اسے کسی شخص معین کی طرف منسوب نہ کرتا۔ ۳۔یہ بھی قول ہے کہ حد کے ثبوت کے لیے مجرم کے اقرار یا گواہ ضروری ہیں ۔ جبکہ عبداللہ بن ابی بن سلول نے نہ تو تہمت کا اقرار کیا اورنہ اس کے خلاف کسی نے گواہی دی۔ کیونکہ وہ یہ افواہیں اپنے ساتھیوں میں پھیلاتا، لیکن انھوں نے اس کے خلاف کوئی گواہی نہ دی اور وہ یہ باتیں اہل ایمان کی مجالس میں نہیں کرتا تھا۔ ۴۔ایک قول یہ ہے کہ حد قذف کو توڑنے سے بندے کے حقوق پامال ہوتے ہیں ، متاثرہ فریق کے مطالبہ کے بغیر اس کی حد کو نافذ نہیں کیا جاتا۔ جس پر تہمت لگائی جائے اس کا مطالبہ ہونا ضروری ہے تاکہ حد قائم کی جائے اور نہ ہی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ابن ابی بن سلول پر حد قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ ۵۔ایک قول یہ ہے کہ اس پر حد قائم کرنے کے بجائے اس کے قائم نہ کرنے میں بہت بڑی مصلحت پوشیدہ تھی۔ جیسا کہ فتنے سے بچنے کے لیے منافقت کی وضاحت ہونے کے باوجود اسے قتل نہیں کیا گیا اور متعدد مرتبہ اس نے ایسی گفتگو کا ارتکاب کیا جس سے اس کا قتل واجب ہو جاتا تھا لیکن اسے
Flag Counter