پہلا مبحث:
سیّدہ عائشہ اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہا کے درمیان
باہمی تکریم و تعظیم کا رشتہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں سیّدہ عائشہ اور سیّدنا علی رضی ا للہ عنہما کے درمیان احترام و تکریم کے مثالی تعلقات تھے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد واقعہ جمل پیش آیا جس میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا دونوں نے اپنا اپنا اجتہاد کیا اور جو کچھ ہوا سو ہوا لیکن اس واقعہ اور منافقوں کی سازشوں کے باوجود دونوں کے درمیان عداوت اور بغض و عناد کبھی بھی پیدا نہ ہوا۔
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جب مرض الموت میں مبتلا تھیں تو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے اور کہا: اے امی جان! آپ کیسی ہیں ؟ سیّدنا عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں خیریت کے ساتھ ہوں ۔ تب سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے انھیں یوں دعا دی: اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے! [1]
ابن جریر رحمہ اللہ واقعہ جمل کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کی طرف اشارہ کر کے کہا: اگر تم اس اونٹ کی کونچیں کاٹ دو تو وہ سب بکھر جائیں گے۔[2]
بعض مورخین اور سیرت نگاروں نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی اس تجویز کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تیر اندازوں کے نشانے سے محفوظ ہو گئیں ۔[3]
جب سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کی کونچیں کاٹ دی گئیں تو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے مجاہدین کی ایک جماعت کو حکم دیا کہ میدان قتال سے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی پالکی کو اٹھا لاؤ اور انھوں نے محمد بن ابی بکر اور سیّدنا عمار رضی ا للہ عنہما کو حکم دیا کہ وہ ان کے لیے خیمہ لگا دیں اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سگے بھائی سیّدنا محمد بن ابی بکر رضی ا للہ عنہما کو کہا: آگے جا کر دیکھو انھیں کوئی زخم تو نہیں آیا تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہہ دیا کہ میں ٹھیک ہوں ۔[4]
|