پر افتراء باندھے گا اور اگر یہ عام مسلمانوں کے بارے میں حکم ہے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے بارے میں تو یہ زیادہ موکدہ اور واجب ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھاہے:
’’جو شخص ان کے گناہوں کا تذکرہ کرے اور ان کی اس توبہ کو بیان نہ کرے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے درجات بلند کیے تو وہ ان پر ظلم کرے گا۔‘‘[1]
تیسرا شبہ:
یہ کہ طلحہ اور زبیر رضی ا للہ عنہما نے انھیں گھر سے نکلنے پر آمادہ کیا اور دونوں نے ان کے ساتھ سفر کیا۔[2]
اس شبہے کا جواب کئی وجوہ سے دیا جائے گا۔[3]
وجہ نمبر ۱:.... ان دونوں نے انھیں گھر سے نکلنے پر آمادہ نہیں کیا، بلکہ وہ ان دونوں سے مکہ میں ملیں اور ان سے پہلے وہ دونوں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے عمرہ کے لیے اجازت لے چکے تھے اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو اجازت دے دی تھی۔
وجہ نمبر ۲:.... یہ کہ طلحہ اور زبیر رضی ا للہ عنہما دونوں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عظمت شان کے معترف تھے اور وہ تینوں برائی سے دُور تھے۔
وجہ نمبر ۳:.... یہ کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے محرموں کے ساتھ پابہ رکاب تھیں ۔ جیسے عبداللہ بن زبیر رضی ا للہ عنہما جو ان کے بھانجے تھے۔ وہی ان کو اٹھا کر پالکی میں سوار کراتے اور بوقت پڑاؤ نیچے اتارتے اور کتاب و سنت و اجماع کے مطابق وہ انھیں چھو بھی سکتے تھے اور وہ لشکر جس نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ قتال کیا اس میں محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ بھی تھے اور یہ وہی ہیں جنھوں نے جنگ کے بعد اپنی بہن کی پالکی میں ہاتھ بڑھایا تاکہ ان کی مدد کرے تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں یوں بددعا دی یہ کس کا ہاتھ ہے، اللہ تعالیٰ اسے آگ سے جلائے۔ تو انھوں نے کہا: اے بہنا! آخرت سے پہلے دنیا میں ؟ چنانچہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: آخرت سے پہلے دنیا میں ۔ چنانچہ محمد بن ابی بکر کو مصر میں آگ سے جلا دیا گیا۔[4]
|