کا عیب نہ لگاتے۔
اس موضوع پر سب سے بہترین کلام امام ابو نعیم الاصبہانی رحمہ اللہ نے کیا ہے، فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر موجودگی میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان ایسے واقعات و حادثات پیش آتے رہتے تھے، لیکن جب اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان واقعات کی خبر دیتا کہ کسی نے اپنے بھائی کو جھگڑے کے دوران شدید غصے کی حالت میں کچھ بے جا الفاظ کہہ دئیے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا اس پر مواخذہ نہ فرماتے اور نہ ان کی عیب جوئی کرتے۔ بلکہ ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عفو و صلح کا حکم دیتے، الفت باہمی کی ان کو ترغیب دلاتے، غیض و غضب کے الاؤ کو ٹھنڈا کرتے اور بتقاضائے بشریت جوش و جذبات کو سکون میں بدلتے۔ اس کی بہترین مثال وہ ہے جو دو سرداروں کے درمیان پیش آئی۔ یعنی سعد بن معاذ[1] اور سعد بن عبادہ رضی ا للہ عنہما جو کہ دین میں بلند شان کے مالک ہیں ۔ ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ نے مزید مثالیں لکھنے کے بعد یوں لکھا: البتہ غیض و غضب اور شدید غصے کی حالت میں کیے گئے کلام کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں کوئی دلیل ہوتی ہے۔ [2]
اگر یہ گفتگو غیض و غضب کی حالت میں ہوئی تھی تو اس شخص کے بارے میں کیا کہنا چاہیے جو فتنہ کی تلاش میں رہتا ہے تاکہ ان کلمات کو حاصل کر لے جو فتنے کے دوران کہے گئے تاکہ ان کے ذریعے سے صحابہ رضی اللہ عنہم پر طعن و تشنیع کی جائے۔ تو یہ فتنہ پرور ہونے کی دلیل ہے اور دل کے کینے کی علامت ہے۔ اے اللہ! ہم ان ظالموں کے ایسے افعال سے تیرے آگے اپنی براء ت کا اعلان کرتے ہیں ۔
ساتواں شبہ:
یہ کہ ’’عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی زندگی کے آخری لمحات میں کہا کرتی تھیں : میں نے علی رضی اللہ عنہ سے قتال کیا اور میں چاہتی ہوں کہ کاش! میں بھولی بسری بن جاؤں ۔‘‘[3]
اس کی دو توجیہات ہو سکتی ہیں :
|