حسن اخلاق سے بھرپور کردار نبھایا۔
دوسرا نکتہ: .... جنگ جمل کی آڑ پیدا کردہ شبہات اور ان کی تردید
پہلا شبہ:
اہل تشیع کا یہ کہنا کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف لڑائی کے لیے نکلنا ظلم و زیادتی تھا۔
وہ ایک حدیث سے استدلال کرتے ہیں جسے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرتے ہیں : ’’تم علی سے قتال کرو گی اور تم اس پر ظلم کرو گی۔‘‘
اسی طرح وہ ایک اور روایت سے بھی استدلال کرتے ہیں جسے مجلسی نے ’’بحار الانوار‘‘ میں صادق علیہ السلام سے وہ اپنے آباءR سے پرندہ کھانے والی حدیث میں روایت کرتا ہے کہ علی علیہ السلام دو بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر آئے لیکن عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے دروازے سے واپس کر دیا جب وہ تیسری بار آئے اور انھوں نے ساری بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے حمیرا! مجھے یہ معاملہ صرف اسی طرح قبول تھا۔ تمھیں اس فعل پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ انھوں نے کہا: اے رسول اللہ! میری خواہش تھی کہ میرے ابا جان یہ پرندہ کھائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں فرمایا: ’’تمہارے اور علی کے درمیان یہ کوئی پہلی کینہ پروری نہیں ۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے تمہارے دل میں علی کے متعلق کیا ہے۔ اگر اللہ نے چاہا تو تم علی کے ساتھ ضرور قتال کرو گی۔ اس نے کہا: اے رسول اللہ! عورتیں بھی کبھی مردوں سے قتال کرتی ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ’’اے عائشہ! تم علی سے ضرور قتال کرو گی اور اس فعل کی دعوت تمھیں میرے اہل بیت اور میرے اصحاب کا ایک گروہ دے گا اور وہ تمھیں اس فعل پر مجبور کر دیں گے اور تمہارے اس قتال میں ایک ایسا معاملہ پیش آئے گا جس کی حکایت اگلے اور پچھلے بیان کریں گے۔ ‘‘[1]
شبہ کا ازالہ :
اوّل:.... یہ روایات شیعوں کی وضع کردہ باطل اور جھوٹ کا پلندہ ہیں ، ایسی جتنی بھی روایات ہیں اور وہ جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کرتے ہیں محض جھوٹ پر مبنی ہیں ، معتبر علمی کتابوں میں ایسی کوئی روایت نہیں اور نہ ہی ان کی اسناد معروف ہیں ۔ وہ صحیح احادیث کی نسبت موضوعات سے زیادہ مشابہت رکھتی ہیں ، بلکہ وہ جھوٹ ہیں۔[2]
|