جب سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھالی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ کے ساتھ وہی کچھ کیا جو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کیا تھا تو انھوں نے بھی کسی کو اس کا مالک نہیں بنایا۔[1]
البتہ وہ حدیث جو مفید نے روایت کی ، اس کی سند میں ابراہیم بن محمد ثقفی ہے۔ ’’لسان المیزان‘‘ کے مصنف نے اس کے بارے میں لکھا ہے: ’’ابن ابی حاتم نے کہا: یہ مجہول ہے۔ امام بخاری نے کہا: اس کی حدیث صحیح نہیں ہوتی۔ ابن عدی نے کہا: اس کی حدیث صحیح نہیں ہے اور ابو نعیم نے تاریخ اصفہان میں کہا: شیعیت میں یہ غالی تھا۔ اس کی حدیث متروک ہے۔[2]
تاہم حسن بن حسین انصاری حسن بن حسین عرنی کوفی ہے۔ اس کے بارے میں علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے لسان المیزان میں لکھا: ’’ابو حاتم نے کہا: ان کے نزدیک یہ صدوق نہیں اور شیعہ کے سرغنوں میں سے ہے۔ ابن عدی نے کہا: اس کی حدیث ثقات کی حدیث جیسی نہیں ہوتی۔ ابن حبان نے کہا: وہ اثبات سے مخلوط روایات بیان کرتا ہے اور مقلوب روایات سناتا ہے۔‘‘[3]
علاوہ ازیں میں اس میں یہ اضافہ کرتا ہوں کہ اس حدیث کی سند میں متعدد مجہول راوی ہیں اور وہ سب جنھوں نے ابو جعفر تک سند بیان کی، جس نے عثمان سے کبھی ملاقات نہ کی یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ چھپن یا ستاون ہجری میں پیدا ہوا، یعنی عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کے کئی سال بعد۔ اس بحث سے یہ واضح ہو گیا کہ یہ روایت ساقط ہے۔ و الحمد للّٰہ۔[4]
تیسرا نکتہ: .... دیگر شبہات
پہلا شبہ:
’’سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سمیت تمام ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم اہل بیت میں سے نہیں ۔‘‘[5]
اہل تشیع کا یہ دعویٰ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے نہیں اور وہ اہل بیت میں علی، فاطمہ، حسن، حسین اور حسین رضی اللہ عنہن کی اولاد میں سے صرف اپنے بارہ اماموں کو شمار
|