انھیں علم تھا کہ بنو امیہ علی رضی اللہ عنہ کو پسند نہیں کرتے، اس لیے انھوں نے بھی اس قول کو صحیح سمجھا تاآنکہ امام زہری رحمہ اللہ نے ولید کے سامنے حقیقت حاصل واضح کی کہ حق تمہارے گمان کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اس کا نیک اجر عطا فرمائے۔‘‘[1]
د:....اس فتنہ کے متوقع نتیجہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا موقف تھا؟
بلاشک و شبہ کہا جائے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی صدیقہ کائنات رضی اللہ عنہا کے متعلق دیگر لوگوں سے زیادہ جانتے تھے اور یہ کہ بہتان و الزام تراشوں کے بہتان سے وہ یقیناً بری ہے۔ اس لیے جو کچھ کہا گیا اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید اذیت پہنچائی۔ جب بدکلامی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و آبرو کی شان میں ہو اور اس ذات کے متعلق ہو جو سب لوگوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ غیرت مند تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سعد رضی اللہ عنہ کی غیرت والے جملے پہنچے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا:
((أَتَعْجَبُونَ مِنْ غَیْرَۃِ سَعْدٍ لَأَنَا أَغْیَرُ مِنْہُ وَاللّٰہُ أَغْیَرُ مِنِّی۔))
’’لوگو! کیا تمھیں سعد کی غیرت پر تعجب ہو رہا ہے۔ اللہ کی قسم! میں اس سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے بڑھ کر غیور ہے۔‘‘[2]
جب ان سرکش بہتان تراشوں نے ام المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر بہتان لگایا تو اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو صدمہ اور پریشانی لاحق ہوئی اس کے آثار آپ کے چہرۂ مبارک اور آپ کے معمولات پر بھی نمایاں دیکھے جا سکتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اور آپ کے اہل بیت یہ بات بخوبی پہچانتے تھے، تاہم یہ اور بات ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صدق و صبر کے ہر امتحان میں کامیاب ہوئے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے رب تبارک و تعالیٰ پر پورا یقین تھا کہ وہ آپ کی مدد کرے گا اور نہ صرف آپ کی حمایت و نصرت فرمائے گا بلکہ آپ کی طرف سے ظالموں سے انتقام بھی لے گا اور رب العالمین کا ہر کام حکمت سے بھرپور ہوتا ہے۔ چنانچہ اس رب ذوالجلال نے ایک ماہ تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی روک لی۔ جبکہ لوگ افواہوں میں بہک رہے تھے۔ ہر کسی کے منہ میں جو آتا کہہ دیتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر حال میں
|