درج بالا تعریفات کے خلاصے کے طور پر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ بیویاں تو اہل بیت کے مفہوم میں داخل ہی ہیں ۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں اور جب مفہوم میں وسعت پیدا کر دی جائے تو آدمی کی اولاد اور اس کے اقارب بھی اس کے اہل بیت میں شامل ہو جاتے ہیں ۔
ب:.... آیاتِ قرآنی کے اعتبار سے:
قرآن کریم کی آیات سے اس بات کی تاکید اور تائید ہوتی ہے کہ بیویاں اہل (گھر والوں ) میں داخل ہیں ۔ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے قصہ میں یہ دلیل ہے کہ جب اللہ عزوجل کے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے تو اللہ سبحانہ نے سیاق کلام میں فرمایا:
﴿ وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِنْ وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ () قَالَتْ يَاوَيْلَتَى أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ وَهَذَا بَعْلِي شَيْخًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عَجِيبٌ () قَالُوا أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللّٰهِ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ ﴾
(ہود: ۷۱۔۷۳)
’’اور اس کی بیوی کھڑی تھی، سو ہنس پڑی تو ہم نے اسے اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوش خبری دی۔ اس نے کہا، ہائے میری بربادی! کیا میں جنوں گی، جب کہ میں بوڑھی ہوں اور یہ میرا خاوند ہے بوڑھا، یقیناً یہ تو ایک عجیب چیز ہے ۔ انھوں نے کہا، کیا تو اللہ کے حکم سے تعجب کرتی ہے؟ اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں تم پر اے گھر والو!‘‘
چنانچہ اللہ عزوجل نے اہل البیت کا لفظ فرشتوں کی زبانی ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کے لیے بولا، اس کا کوئی دوسرا مفہوم نہیں اور اس بات کا اعتراف و اقرار علماء شیعہ میں سے طبرسی[1] نے (مجمع البیان)میں کیا۔ کاشفی نے ’’منہج الصادقین‘‘ میں کیا۔
اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ فَلَمَّا قَضَى مُوسَى الْأَجَلَ وَسَارَ بِأَهْلِهِ آنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّورِ نَارًا﴾
(القصص: ۲۹)
’’پھر جب موسیٰ نے وہ مدت پوری کردی اور اپنے گھر والوں کو لے کر چلا تو اس نے پہاڑ کی
|