چوتھا مبحث :
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات
مؤمنین کی ماں مقدسہ و مطہرہ رضی اللہ عنہا آخری عمر میں طویل عرصہ تک بیمار رہیں اور جب انھیں یقین ہو گیا کہ یہ مرض الموت ہے اور کوچ کا مرحلہ آنے والا ہے تو وہ نہایت عجز و انکساری سے پکار اٹھیں جبکہ وہ اپنے دل میں سوچا کرتی تھیں کہ انھیں اپنے گھر میں دفنایا جائے۔ وہ کہا کرتی تھیں : ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک گناہ کا ارتکاب کر لیا لہٰذا تم مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے ساتھ دفنا دینا۔‘‘[1]
اس گناہ سے ان کی مراد جنگ جمل میں شرکت تھی اور اس معاملے کے لیے ان کی اپنی تاویل تھی۔ اسی لیے انھوں نے عبداللہ بن زبیر رضی ا للہ عنہما کو وصیت کر دی کہ ’’تم مجھے ان کے ساتھ نہ دفنانا اور مجھے بقیع کے قبرستان میں میری بہنوں کے ساتھ دفنانا۔ میں اس واقعہ سے اپنے آپ کو کبھی بری الذمہ نہیں سمجھتی۔‘‘[2]
مرض الموت میں ابن عباس رضی ا للہ عنہما ان کی عیادت کے لیے گئے ۔ ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ سیّدنا ابن عباس رضی ا للہ عنہما نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جانے کی اجازت طلب کی جبکہ وہ انتہائی لاغر[3]ہو چکی تھیں ۔ وہ کہنے لگیں : ’’مجھے اندیشہ ہے کہ وہ میری تعریف کریں گے۔‘‘ تو کہا گیا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد اور مسلمانوں کی معتبر شخصیت ہیں ۔‘‘ وہ کہنے لگیں : ’’تم انھیں اجازت دے دو۔‘‘ وہ آئے تو کہنے لگے: ’’آپ کی طبیعت کیسی ہے؟‘‘ جواب دیا: ’’خیریت کے ساتھ ہوں اگر میں (عذاب الٰہی سے) بچ گئی۔‘‘ ابن عباس رضی ا للہ عنہما نے کہا: ’’اگر اللہ نے چاہا تو آپ بھلائی پر ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں آپ کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کنواری سے شادی نہیں کی اور آسمان سے آپ کی براء ت نازل ہوئی۔‘‘
|