Maktaba Wahhabi

235 - 677
کرے تو بے شک اللہ قدر دان ہے، سب کچھ جاننے والا ہے۔ ‘‘ میں نے کہا: اللہ کی قسم! اگر کوئی شخص ان دونوں کے درمیان طواف نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔اس پر آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:’’اے میرے بھانجے! تم نے نامعقول بات کی ہے ۔ کیونکہ یہ آیت انصار کی شان میں نازل ہوئی۔ اسلام لانے سے پہلے وہ ’’مناۃ‘‘ (بت) سے احرام باندھتے اور وہاں سے ہی تلبیہ شروع کرتے اور مقام ’’مشلل‘‘[1] پر اس کی پوجا کرتے اور جو وہاں سے احرام باندھتا تو وہ صفا و مروہ کے درمیان طواف کرنے کو گناہ سمجھتا تھا لیکن جب وہ اسلام لے آئے تو انھوں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔‘‘[2] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان: ﴿ وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا﴾ (النساء: ۱۲۸) ’’اور اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے کسی قسم کی زیادتی یا بے رخی سے ڈرے۔‘‘ یہ اس عورت کے بارے میں ہے جو کسی مرد کے پاس ہو تو اس کا خاوند اس سے بے رغبت ہو اور وہ اسے طلاق دینا چاہتا ہو تاکہ کسی دوسری عورت سے شادی کر لے۔ چنانچہ وہ عورت کہے: تو مجھے اپنے پاس رکھ لے اور مجھے طلاق نہ دے، پھر کسی اور سے شادی کر لے تو تیرے لیے جائز ہے کہ مجھے نان و نفقہ نہ دے اور میرے لیے باری بھی مقرر نہ کر۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمان نازل کیا: ﴿ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ﴾[3] (النساء: ۱۲۸) ’’تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ آپس میں کسی طرح کی صلح کر لیں اور صلح بہتر ہے۔‘‘[4] اس واقعہ کی تفصیل دوسری روایت میں موجود ہے کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عروہ رحمہ اللہ سے فرمایا: ’’اے میرے بھانجے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باری میں ہمیں ایک دوسرے پر ترجیح نہ دیتے اور تقریباً ہر روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سب کے پاس ضرور آتے اور ہر بیوی کے پاس رہتے(البتہ) ہمبستری نہ کرتے حتیٰ کہ اس کی باری آ جاتی تو وہ اس کے پاس رات گزارتے اور جب
Flag Counter