اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کے لیے کتنا پانی استعمال کرتے اور کس طرح غسل کرتے۔ چنانچہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس اشکال کو جڑ سے اکھاڑنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ان دونوں کو بالفعل غسل کر کے دکھا دیا اور صرف زبانی بتانے پر اکتفا نہ کیا۔ نیز سوال صرف کیفیت غسل کے بارے میں نہ تھا بلکہ سوال کیفیت اور کمیت (مقدار) دونوں کے بارے میں ایک ساتھ تھا۔ چنانچہ اس ذات شریف نے اپنے بدن پر پانی انڈیلنے سے پہلے ان دونوں کے آگے پردہ لٹکایا۔ تاکہ خیرخواہی بھی مکمل ہو اور تعلیم بھی کمال کی ہو اور ان کی عقل کی تکمیل کو داد بھی ملے، اس سے ان منصف مزاج قارئین و سامعین کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صدیقہ بیوی رضی اللہ عنہا سے احادیث سن کر محفوظ کرتے ہیں ۔
شاید امام بخاری رحمہ اللہ کا اپنی صحیح الجامع میں یہ باب اس عنوان سے باندھنے میں یہی راز ہے۔ چنانچہ انھوں نے باب باندھا: ’’بَابُ الْغُسْلِ بِالصَّاعِ وَ نَحْوِہٖ‘‘ ایک صاع جتنے سے غسل کا بیان۔[1]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :’’ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے عمل میں تعلیم بالفعل کے مستحب ہونے کی دلیل ہے۔ کیونکہ یہ طریقہ دل پر زیادہ گہرا اثر کرتا ہے اور جب سوال کیفیت اور کمیت دونوں پر محمول ہے تو ان دونوں کے لیے عمل ایسا کیا گیا جس میں ان کے سوال کے دونوں اجزاء کا جواب دیا گیا۔ پانی بہانے سے کیفیت کا جواب مل گیا اور صاع برابر پانی پر اکتفاء کرنے سے کمیت کا علم ہو گیا۔‘‘[2]
تو غور کا مقام ہے کہ جب عقلِ انسانی اس پستی میں جا گرے کہ جہاں بعض لوگ ہر فضیلت کو رذالت و فضاحت کہنے لگیں اور حسنِ تعلیم کو سوء ادب کہیں ، سائل کی مکمل تسلی و تشفی کو قلت حیا سے تعبیر کریں اور شرفِ علم کو ایسی برائی کہیں جسے آدمی بیان کرنے سے قاصر ہو تو پھر دل، ذہن اور عقل تام کی کونسی چیز باقی بچتی ہے؟
چوتھا شبہ:
روافض کہتے ہیں کہ ’’عائشہ رضی اللہ عنہا نو عمر لڑکیوں کو بناؤ سنگھار کروا کے ان کے ساتھ طواف کرتی تھیں ۔‘‘
روافض کا کہنا کہ’’بے شک عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک لڑکی کو بناؤ سنگھار کروایا اور اس کے ساتھ طواف کیا اور کہنے لگیں شاید ہم اس کے ذریعے قریش کے نوجوانوں کا شکار کریں ۔ ان کی مراد وہ برا معنی ہے
|