قیمت یکمشت دے کر انھیں خریدا اور آزاد کر دیا۔[1]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہا کی تربیت آزادی دلانے کی فضیلت پر کی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہا کے پاس بنوتمیم کی ایک لڑکی بطور خادمہ تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
((اَعْتِقِیْہَا فَاِنَّہَا مِنْ وُلْدِ اِسْمَاعِیْلَ)) [2]
’’تم اسے آزاد کر دو کیونکہ یہ اولاد اسماعیل علیہ السلام سے ہے۔‘‘
۳۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے زہد و ورع کی مثالیں :
ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے کثرت صیام و قیام اور کثرت جود و سخا کے باوجود اپنی مدح و ثنا سے سخت نفرت کرتی تھیں اور ریا کے خوف سے اگر کسی موقع پر اپنی مدح ہوتے ہوئے سن لیتیں تو کہتیں : ’’کاش! میں بھولی بسری بن جاتی۔‘‘[3]
اکثر مواقع پر سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا مشہور شاعر لبید[4] بن ربیعہ عامری رضی اللہ عنہ کا یہ شعر پڑھا کرتیں :
ذَہَبَ الَّذِیْنَ یُعَاشُ فِیْ اَکْنَافِہِمْ
وَ بَقِیْتُ فِیْ خَلْفٍ کَجِلْدِ الْاَجْرَبِ
’’انسانیت کے ہمدرد و غمگسار تو یکے بعد دیگرے چلے گئے اور میں خارش زدہ جلد کی طرح بدنام لوگوں میں پیچھے رہ گیا۔‘‘[5]
نیز سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں :
|