۴۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے خشوع، قیام اور نرم دلی کی مثالیں :
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نہایت نرم دل، اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والی اور طویل قیام کرنے والی خاتون تھیں ۔ وہ اپنی ذات میں کوئی فضیلت نہ دیکھتیں اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت کا سہارا لیتیں ۔ جیسا آپ رضی اللہ عنہا کے والد محترم سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نسبت مروی ہے بالکل ویسا ہی خشوع و خضوع، تواضع اور قنوت سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ذات میں نمایاں تھا۔ ان کے قول و کردار اس کے بہترین شاہد ہیں ، وہ خود اپنے بارے میں فرمایا کرتی تھیں :
’’کاش! میں اس درخت کا ایک پتہ ہوتی۔‘‘[1]
ایک دن اپنی جائے نماز پر قیام کی حالت میں تادیر ایک ہی آیت﴿فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیْنَا وَوَقٰنَا عَذَابَ السَّمُومِo ﴾ (الطور: ۲۷) ’’پھر اللہ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں زہریلی لو کے عذاب سے بچا لیا۔‘‘[2] پڑھتی اور روتی رہیں اور قیام نہایت طویل کیا۔ اس دوران آپ یہ دعا کر رہی تھیں :
((رَبِّ مُنَّ عَلَیَّ، وَقِنِیْ عَذَابَ السَّمُوْمِ))
’’اے میرے رب تو مجھ پر احسان فرما اور مجھے گرم لو کے عذاب سے بچا لے۔‘‘
لوگوں کی اصلاح کی نیت سے جنگ جمل میں شرکت پر ندامت کا اظہار:
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جب لوگوں کے درمیان صلح کی نیت سے جنگ جمل میں اپنی عملی شرکت کو یاد کرتیں تو ہمیشہ تاسف بھرے لہجہ میں اپنی ندامت کا اظہار کرتیں اور آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی استغفار کا اعلان کرتیں ، یہاں تک کہ ان کی اوڑھنی بھیگ جاتی۔
ان کے بھانجے عبداللہ بن زبیر رضی ا للہ عنہما نے کسی معاملے میں ایک بار کہہ دیا: اللہ کی قسم! خالہ عائشہ اس قدر سخاوت سے رُک جائیں وگرنہ میں ان سے علیحدہ ہو جاؤں گا۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے استفسار کیا: کیا عبداللہ نے ایسی بات کی ہے لوگوں نے تصدیق کی۔ تو فوراً نذر مان لی کہ اللہ کے لیے مجھ پر نذر ہو اگر میں کبھی بھی ابن زبیر سے بات کروں ۔ جب ان کی ناراضی طویل ہو گئی تو عبداللہ بن زبیر سفارشیں کروانے لگے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے علانیہ کہا: اللہ کی قسم! میں اس معاملے میں نہ تو کوئی سفارش قبول کروں گی اور نہ اپنی نذر توڑوں گی۔ جب یہ معاملہ طول پکڑ گیا اور ابن زبیر رضی ا للہ عنہما مشقت میں پڑ گئے تو انھوں نے
|