ہوئے ہیں جو وہ کہتے ہیں ، ان کے لیے بڑی بخشش اور باعزت روزی ہے۔‘‘
جبکہ ہماری امی نے عربوں کی عادت کے مطابق دس آیات کہیں ، اسے علمائے لغت ’’الغاء الکسر‘‘ کا قاعدہ کہتے ہیں ۔ (عرب دو دہائیوں کے درمیان والے اعداد کو گنتی میں شامل نہیں کرتے۔ ظفر) [1]
دوسرا نکتہ:.... قصہ بہتان کے اہم نکات
ا:....الافک کا لغوی معنی و مفہوم:
’’الافک‘‘ ایسا اسم ہے جو خالص جھوٹ پر بولا جاتا ہے۔ جس کے جھوٹ ہونے میں کسی قسم کا شبہ نہ ہو۔
یہ وہ بہتان ہوتا ہے جو اچانک لوگوں پر تھوپ دیا جاتا ہے۔ پھر غالب استعمال کی وجہ سے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر لگائے گئے بہتان کا اسم علم بن گیا۔ جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کی براء ت کا اعلان اپنی آخری کتاب میں کیا۔[2]
وجہ تسمیہ:.... اس حادثہ کو واقعہ افک کیوں کہا جاتا ہے؟ جیسا کہ رازی نے لکھا: ’’اللہ تعالیٰ نے اس جھوٹ کو افک اس لیے کہا کیونکہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی سیرت و کردار اس کے بالکل برعکس تھا۔‘‘
فتح البیان کے مصنف نے لکھا: ’’اللہ تعالیٰ نے اس کا نام افک اس لیے رکھا، کیونکہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا کردار اس کے بالکل برعکس تھا۔‘‘
نیز علامہ واحدی سے قول منقول ہے کہ ’’اس واقعہ کو ’’افک‘‘ حقیقت بدلنے کی وجہ سے کہا گیا ہے۔ کیونکہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی شرافت، عفت و عصمت، حصانت و حفاظت، عقل و دیانت، علو نسب، غیرت و آبرو میں بے مثال تھیں ۔ وہ تو مدح و ثنا کی مستحق تھیں جب ان کے کردار پر کیچڑ اچھالنے کی سازش کی گئی تو گویا تمام حقائق کو بدل دیا گیا۔ یعنی یہ قبیح بہتان اور علانیہ جھوٹ تھا۔‘‘
ابو سعود[3]نے لکھا:’’ یہ الزام حقائق کو بدل کر لگایا گیا تھا۔
|