سے زیادہ کیا کہا جائے گا کہ اس نے نافرمانی کا ارتکاب کیا، پھر اس سے توبہ کر لی ۔ چنانچہ جنت میں جانے والوں کے لیے گناہوں سے معصوم ہونا شرط نہیں بلکہ مومن بھی گناہ کرتے ہیں پھر وہ توبہ کر لیتے ہیں اور بعض اوقات توبہ کے بغیر دیگر اسباب سے ان کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ۔ مثلاً اگر کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے تو صغیرہ گناہ معاف ہو جائیں گے۔ یہ جمہور اہل سنت کی رائے ہے۔ بلکہ ایسے گناہ ان نیک اعمال کی وجہ سے مٹا دئیے جاتے ہیں جو برائیوں سے درجے میں بہت بڑے ہوتے ہیں اور اکثر اہل سنت کے نزدیک مصائب کے نزول کے وقت صبر سے بہت سے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے ۔
سوچنے کی بات ہے کہ سیّدہ حفصہ اور سیّدہ عائشہ رضی ا للہ عنہما کے امت مسلمہ پر کس قدر احسانات ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی زندگی میں بھی اطاعت گزاری کی اور ان دونوں کے لیے یہی شرف کافی ہے کہ ان دونوں نے اللہ اور اس کے رسول کو دنیا اور اس کی زینت پر ترجیح دی۔[1]
چوتھا شبہ:
روافض کہتے ہیں کہ ’’ہماری امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: آپ عدل کریں ۔‘‘
اس بات پر انھوں نے اس روایت سے استدلال کیا جو قاسم بن محمد نے عائشہ سے روایت کی ہے کہ میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کچھ ان بن تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میرے اور اپنے درمیان کس کو حکم (فیصل) بنانا چاہتی ہو؟ کیا تو ابو عبیدہ بن جراح پر خوش ہے؟ میں نے کہا: نہیں ۔ وہ نرم مزاج آدمی ہے، وہ آپ کے حق میں اور میرے خلاف فیصلہ کرے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم عمر بن خطاب پر خوش ہو؟ میں نے کہا: نہیں ، کیونکہ میں عمر سے بہت ڈرتی ہوں ۔[2]
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان بھی عمر سے ڈرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو ابوبکر کو فیصل بنانے پر خوش ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف قاصد بھیجا۔ وہ آ گیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کرو۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں (فیصلہ کروں )؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بات شروع کی۔ بقول عائشہ رضی اللہ عنہا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے رسول اللہ! آپ انصاف کریں ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی
|