تو کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد کو اس کا حکم دیا تھا اسی طرح زیر بحث مسئلہ میں بھی کہا جائے گا کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا حکم نہیں دیا بلکہ اس کے برعکس حکم دیا۔
چھٹا شبہ:
یہ کہ ’’عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’میں جانتا ہوں کہ یہ (عائشہ رضی اللہ عنہا ) دنیا و آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے تمھیں آزمایا ہے آیا تم اس (علی رضی اللہ عنہ ) کی پیروی کرتے ہو یا اس (عائشہ رضی اللہ عنہا ) کی۔‘‘[1]
شبہے کا جواب:
اس شبہے کا جواب تین وجوہ سے دیا جائے گا۔
وجہ نمبر ۱:.... یہ کہ ان کی دلیل ان پر ہی پلٹا دی جائے۔[2]
لہٰذا کہا جائے گا کہ اس اثر میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی مدحت کی گئی ہے ان کی مذمت نہیں اور بالکل یہی مفہوم حفاظ و ائمہ حدیث نے لیا ہے۔ جیسا کہ امام بخاری اور ان کے شاگرد امام ترمذی رحمہما اللہ نے اپنی کتابوں میں باب باندھا ہے ’’باب فضل عائشۃ‘‘۔[3]
اس مفہوم کی تائید جس واقعہ سے ہوتی ہے وہ یوں ہے کہ سیّدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کسی نے نازیبا کلمات کہے تو سیّدنا عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: تو خائب و خاسر ہو کر دفع ہو جا کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب بیوی کو اذیت دیتا ہے۔[4]
تو کیا دنیا و آخرت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہونے سے بھی بڑی کوئی فضیلت ہے؟
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا:
’’عمار رضی اللہ عنہ کا یہ قول ان کے انصاف، ان کے ورع اور سچی بات کے لیے ان کی کوشش کی دلیل ہے۔‘‘[5]
|