’’پرندے والی حدیث کسی ثقہ نے روایت نہیں کی۔ اسے اسماعیل بن سلمان بن ازرق اور اس کی طرح ضعیف راویوں نے روایت کیا۔ تمام ائمہ حدیث یہ روایت ردّ کرتے ہیں۔‘‘[1]
نیز یہ حدیث شیعہ مذہب کی بھی مخالفت کرتی ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ علی رضی اللہ عنہ تمام مخلوق سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے اور یہ کہ آپ نے اسے اپنے بعد خلیفہ بنایا ہے جبکہ اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے ہاں محبوب ترین شخص کا علم نہیں تھا۔ اگر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا تو پھر آپ کے لیے ممکن تھا کہ آپ اسے بلوا بھیجتے۔ جس طرح آپ اپنے کسی بھی صحابی کو بلوا لیتے یا آپ یوں دعا کرتے: اے اللہ! تو علی کو میرے پاس لا۔ کیونکہ وہ تمام مخلوق میں تیرے نزدیک محبوب ترین ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی دعا مبہم الفاظ کے ساتھ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر آپ علی رضی اللہ عنہ کا نام لے دیتے تو انس رضی اللہ عنہ ناحق امیدوار نہ ہوتے اور نہ ہی علی رضی اللہ عنہ کو دروازے پر روکا جاتا اور اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم نہیں تھا کہ علی رضی اللہ عنہ اللہ کے ہاں محبوب ترین ہیں تو شیعوں کا یہ قول باطل ہو جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم تھا۔
پھر روایت کے الفاظ پر غور کرنا چاہیے: ’’اے اللہ! جو تجھے سب سے زیادہ محبوب ہو اور جو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے‘‘ تو کیا آپ کو معلوم نہیں تھا کہ سب سے محبوب آپ کے نزدیک کون ہے؟ نیز کتب صحاح میں احادیث تواتر کے ساتھ ثابت ہیں جن کی صحت پر تمام محدثین کا اجماع ہے اور جن احادیث کو قبول عام حاصل ہے وہ اس روایت کی مخالف ہیں ۔ تو کس طرح صحیح متواتر احادیث کے مقابلے میں ایک موضوع اور جھوٹ موٹ کا افسانہ پیش کیا جاتا ہے۔ جسے وہ خود بھی صحیح نہیں کہتے۔[2]
آٹھواں بہتان:
’’عائشہ رضی اللہ عنہا انصاری عورتوں کو علی رضی اللہ عنہ کی مدح و ثنا بیان کرنے سے روکتی تھیں ۔‘‘
بیاضی نامی شیعہ مصنف لکھتا ہے:
’’جب علی علیہ السلام کے لیے فاطمہ کی رخصتی ہوئی تو انصاری عورتوں نے کہا: اس کا باپ لوگوں کا سردار ہے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کہو: اس کا خاوند بہادر اور جنگجو ہے۔ ان عورتوں نے علی کا نام نہ لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتا دیا کہ عائشہ نے
|