’’چنانچہ ہم قضا نہیں دیتی تھیں ۔‘‘[1]
تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس بات سے ثابت ہوتا ہے ’’کیا تو حروریہ ہے؟‘‘ وہ اس فرقہ سے نفرت کرتی تھیں ۔ اس کے مدمقابل یعنی سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا احترام کرتی تھیں ۔
پانچواں نکتہ
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ [2]کے عہد خلافت میں
جنگ جمل میں مسلمانوں کے کثرت سے جانی نقصان پر سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو شدید صدمہ پہنچا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے آپ کو نماز، روزہ، صدقہ و خیرات، استغفار اور علوم سنت کی نشر و اشاعت کے لیے وقف کر دیا اور اپنے حجرے سے باہر نکلنا بالکل بند کر دیا۔
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان باہمی تعلقات اتنے اچھے تو نہیں تھے جیسے گزشتہ ادوار میں خلفاء اربعہ کے ساتھ تھے۔ تاہم سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی خلافت سے پہلے تعلقات کشیدہ نہ تھے۔ اگرچہ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرح سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت و منقبت کے قدردان تھے بلکہ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کے مطالبہ میں تو وہ دونوں متفق تھے۔ اگرچہ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد بھی پوری کوشش کی کہ وہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ رابطہ مضبوط کر لیں لیکن کوئی نہ کوئی ایسا حادثہ پیش آ جاتا جو سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی اس خواہش کو پورا نہ ہونے دیتا۔[3]
جیسے سیّدنا محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ ہے۔ یہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاتی بھائی تھے۔ انھیں ۳۸ ہجری میں مصر میں بے دردی سے شہید کر دیا گیا یہ وہاں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے گورنر تھے تو وہاں
|