شیعہ نے عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے کینے کے لیے سیف بن عمر[1] کی اس روایت سے استدلال کیا ہے جو اس نے اپنی کتاب ’’الفتنۃ و وقعۃ الجمل‘‘ میں روایت کی ہے۔ وہ لکھتا ہے: ’’عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ’’جب وہ مکہ کی طرف لوٹتے ہوئے سرف کے مقام پر پہنچیں تو عبد بن ام کلاب نے اس سے ملاقات کی جو عبد بن ابی سلمہ ہے اور اپنی ماں کی طرف منسوب ہے۔ چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عبد سے کہا: تم کس حال میں ہو؟[2] اس نے کہا: انھوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ پھر وہ آٹھ دن تک وہاں رہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: پھر انھوں نے کیا کیا؟ اس نے بتایا کہ اہل مدینہ جمع ہوئے تو انھوں نے نہایت خوش اسلوبی سے معاملات حل کر لیے۔ انھوں نے علی بن ابی طالب پر اتفاق کر لیا۔ یہ سن کر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کی قسم! کاش آسمان زمین پر گر جاتا۔ اگر تیرے ساتھی کے سپرد معاملہ ہو گیا ہے، تو تم مجھے واپس لے جاؤ۔ عائشہ فوراً مکہ واپس آ گئیں اور وہ کہہ رہی تھیں : اللہ کی قسم! عثمان کی شہادت مظلومانہ ہے۔ اللہ کی قسم! میں اس کا قصاص لوں گی۔ یہ سن کر ابن ام کلاب نے ان سے کہا: وہ کیوں ؟ اللہ کی قسم! سب سے پہلے تم ہی نے عثمان کے عیوب نکالے ، تم یہ بھی کہتی تھی کہ تم لمبی داڑھی والے بوڑھے بے وقوف کو قتل کر دو، کیونکہ وہ کافر ہو چکا ہے۔
عائشہ نے جواب دیا: ’’فتنہ پروروں نے اسے توبہ کروائی، پھر اسے قتل کر دیا۔ یقیناً میں نے ایک بات کی اور وہ بھی باتیں کرتے ہیں اور میرا آخری قول میرے پہلے قول سے بہتر ہے .... وہ مکہ چلی گئیں اور مسجد حرام کے دروازے پر اتریں اور حجر اسود کی طرف جانے لگیں تو انھیں پردہ کرایا گیا اور لوگ ان کے پاس جمع ہو گئے۔ انھوں نے کہا: اے لوگو! بے شک عثمان مظلومانہ طور پر شہید کر دئیے گئے ہیں اور اللہ کی قسم! میں ضرور اس کے خون بہا کا مطالبہ کروں گی۔‘‘[3]
اس بہتان کا جواب کئی طریقوں سے دیا جائے گا:
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ روایت موضوع و مکذوب ہے۔ صحیح نہیں ہے۔ جس کی متعدد دلیلیں ہیں :
|